Tafseer-e-Majidi - Maryam : 35
مَا كَانَ لِلّٰهِ اَنْ یَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ١ۙ سُبْحٰنَهٗ١ؕ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُؕ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِلّٰهِ : اللہ کیلئے اَنْ : کہ يَّتَّخِذَ : وہ بنائے مِنْ : کوئی وَّلَدٍ : بیٹا سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے اِذَا قَضٰٓى : جب وہ فیصلہ کرتا ہے اَمْرًا : کسی کام فَاِنَّمَا : تو اس کے سوا نہیں يَقُوْلُ : وہ کہتا ہے لَهٗ : اس کو كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : پس وہ ہوجاتا ہے
اور اللہ کی یہ شان ہی نہیں کہ وہ اولاد اختیار کرے وہ بالکل پاک ہے،53۔ وہ تو جب کسی امر کا تہیہ کرلیتا ہے تو بس اس سے صرف اتنا کہہ دیتا ہے کہ ہوجا، سو وہ ہوجاتا ہے،54۔
53۔ اس کی جانب اولاد کا انتساب معمولی اور فرعی غلطی نہیں۔ بنیادی، مرکزی اور اہم ترین ضلالت ہے۔ اتخاذ ولد پر حاشیہ سورة بقرہ۔ (آیت) ” وقالوا اتخذ اللہ ولدا “۔ سبحنہ “۔ کے تحت میں گزر چکا۔ (آیت) ” من ولد “۔ من تاکید نفی کے لئے ہے۔ جیء من لتاکید النفی (مدارک) (آیت) ” ماکان للہ “۔ یہ اسی طرح کا فقرہ ہے۔ جیسے دوسری جگہ قرآن میں ہے۔ ماکان للہ ان یظلم۔ اے لایلیق ذلک بحکمتہ و کمال الھیہہ (کبیر) 54۔ (ایسے قوت واقتدار مطلق رکھنے والے کو اولاد کی حاجت کیا، اور ایسے کمال والے کے لئے اولاد کا ثابت کرنا عقلا کمال کا نہیں نقص کا اثبات کرنا ہے) (آیت) ” کن فیکون “۔ پر حاشیہ پہلے گزر چکا۔ (آیت) ” لہ “۔ یعنی اسی امر سے، جو اپنے وقوع میں آنے سے پیشتر ہی حکم الہی میں موجود رہتا ہے۔
Top