Mafhoom-ul-Quran - Maryam : 35
مَا كَانَ لِلّٰهِ اَنْ یَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ١ۙ سُبْحٰنَهٗ١ؕ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُؕ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِلّٰهِ : اللہ کیلئے اَنْ : کہ يَّتَّخِذَ : وہ بنائے مِنْ : کوئی وَّلَدٍ : بیٹا سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے اِذَا قَضٰٓى : جب وہ فیصلہ کرتا ہے اَمْرًا : کسی کام فَاِنَّمَا : تو اس کے سوا نہیں يَقُوْلُ : وہ کہتا ہے لَهٗ : اس کو كُنْ : ہوجا فَيَكُوْنُ : پس وہ ہوجاتا ہے
اللہ کو ضرورت نہیں کہ کسی کو بیٹا بنائے وہ پاک ہے جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو یہی کہتا ہے ” ہوجا “ تو وہ ہوجاتا ہے۔
اللہ کی شان ِبے نیازی اور قیامت کے برحق ہونے کی دلیل تشریح : یہ آیات ایک تو اللہ کی وحدانیت کو ثابت کرتی ہیں کہ وہ تو کسی کی بھی مدد سے بےنیاز ہے۔ اور جو لوگ پیغمبر کی تعلیمات سے ہٹ کر کفر و شرک کرتے ہیں تو ان کو ہوشیار ہوجانا چاہیے کہ ان کا انجام موت پر ہونے والا ہے جیسا کہ صبح سے شام تک یہ عمل ہو رہا ہے۔ کوئی مر رہا ہے کوئی پیدا ہو رہا ہے، یعنی کوئی آرہا ہے اور کوئی جا رہا ہے۔ جو جا رہا ہے اس کو سوچنا چاہیے کہ مرنے کا مطلب ہے دوبارہ زندہ ہو کر اس زندگی کے تنائج کے مطابق انعام حاصل کرنا یا پھر سزا پانا۔ ہر ایک کو اس امتحان اور نتیجہ پر نظر رکھ کر عمل کرنے چاہییں۔ یہ لفظ ” ہوجا “ اور فرمان الٰہی کہ ” ہم زمین کے اور جو کچھ اس میں ہے وارث ہوں گے اور وہ ہماری ہی طرف پھر آئیں گے۔ “ صاف طور پر سائنٹفک معنوں کی حامل ہے۔ کیونکہ ہر چیز حکم الٰہی ” ہوجا “ کا لکھا ہوا ثبوت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا پورا پورا پروگرام اس کی اصل میں یعنی ایک بیج میں اس کے پھوٹنے کا وقت بڑھنے پھولنے پھلنے اور پھر ختم ہوجانے کا پورا حساب کتاب رکھ دیا ہوا ہے اسی طرح یہ کائنات اور اس کے اندر موجود ہر چیز صرف اور صرف اللہ کی ہی ملکیت ہے۔ اس نے ہر چیز کو اپنے ہی قبضہ قدرت میں رکھا ہوا ہے مگر کچھ مدت کے لیے ان کو کھلاچھوڑ دیا ہے کہ اپنی مرضی سے زندگی گزارو۔ یہ مرضی کی رعایت صرف انسان کے لیے ہے۔ انسان کی پیدائش، دوران زندگی کے واقعات اور پھر اختتام یہ سب کچھ اس قطرہ منویہ میں درج کردیا جاتا ہے جس سے اس کی تشکیل ہوتی ہے۔ مگر اس کی ابتدا اللہ کے حکم ” ہوجا “ کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ ثابت ہوگیا کہ دنیا کی ہر چیز اور خود کائنات کا وجود آسمانوں اور زمین کا وجود سب کچھ اللہ کے حکم ” ہوجا “ سے ہوتا ہے اور جب مدت پوری ہوجائے گی تو پھر دوبارہ اپنے اصلی مالک کی طرف لوٹ کر جانا ضروری ہوگا۔ اور پھر اصل مالک یہ ضرور پوچھے گا کہ بتا جو نعمتیں تجھے دی گئی تھیں ان کو کیسے استعمال کیا ؟ ظاہر ہے ہر کسی کو اس کی اپنی ہی زندگی کا حساب دینا ہوگا۔ اصل میں ” ہوجا “ قرآن کے بنیادی قوانین میں سے ایک قانون ہے۔ ڈاکٹر ہلوک نور باقی صاحب اس کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں۔ ” جدید فزکس اور بیالوجی نے ہمیں بتایا ہے کہ کوئی چیز اپنی تخلیق کے ابتدائی ریاضیاتی پروگرام کو تبدیل کرنے سے ہی اپنی ہئیت کو تبدیل نہیں کرسکتی۔ مثلاً فزکس میں کسی متحرک چیز کی فطرت ہی یہ ہے کہ وہ اس نتیجہ سے مطابقت رکھے جو اس کی تیزی (رفتار) یا فری کونسی۔ لہر کے عمل (Wave Length) اور توانائی کے باہمی عمل سے پیدا ہو۔ چناچہ سورج اور زمین کے درمیان ہزاروں اثرات میں سے گزر کر روشنی کی ایک پیلی کرن، بغیر کسی تبدیلی کے ہماری آنکھوں تک پہنچتی ہے۔ “ ( قرآنی آیات اور سائنسی حقائق) سلطان بشیر محمود صاحب اس کو کچھ اس طرح لکھتے ہیں :” سائنس دان یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ ایٹم سے لے کر بڑے سے بڑے ستاروں کے اندر اپنے اپنے کلاک ہیں، جس کے مطابق ان کے فیصلے ہوتے ہیں۔ خود انسان جینز (Genes) کا مجموعہ ہے اور ایک ایک جین کمپیوٹر کی مانند ہے۔ جس پر پیدائش سے موت تک کے تمام پروگرام درج ہیں۔ اور وہ خود بخود زندگی کو اس پہلے سے لکھے ہوئے محفوظ دستاویز کے مطابق چلاتے رہتے ہیں۔ “ (قیامت اور حیات بعدالموت) مطلب یہ ہے کہ یہ آسمان، زمین اور اس کی ہر چیز اللہ کی حاکمیت میں جکڑی ہوئی ہے۔ جو بھی بندہ اس کی بندگی سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے وہ دنیا و آخرت میں رسوا ہوتا ہے۔ یہی اللہ کا حکم ہے اور یہی اس کا قانون ہے۔ یہ سب غیب کی باتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کے ذریعے بتا رہا ہے۔ حدیث ہے :” اللہ کی قسم مجھے از خود نہیں معلوم، بخدا میں خود نہیں جانتا کہ میرے اور تمہارے معاملے میں آخرت کے روز کیا کیا جائے گا، حالانکہ میں اللہ کا رسول ہیں۔ “ (بخاری) ” اے اللہ ہم سے آسان حساب لینا۔ “ آمین۔
Top