Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 126
اَوَ لَا یَرَوْنَ اَنَّهُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ لَا یَتُوْبُوْنَ وَ لَا هُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
اَوَ : کیا لَا يَرَوْنَ : وہ نہیں دیکھتے اَنَّھُمْ : کہ وہ يُفْتَنُوْنَ : آزمائے جاتے ہیں فِيْ كُلِّ عَامٍ : ہر سال میں مَّرَّةً : ایک بار اَوْ : یا مَرَّتَيْنِ : دو بار ثُمَّ : پھر لَا يَتُوْبُوْنَ : نہ وہ توبہ کرتے ہیں وَلَا : اور نہ ھُمْ : وہ يَذَّكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑتے ہیں
کیا یہ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کو آزمائش میں ڈالا جاتا ہے ہر سال ایک یا دو مرتبہ، پھر بھی نہ تو یہ توبہ کرتے ہیں اور نہ ہی یہ کوئی سبق لیتے ہیں2
223 منافقوں کی باربار کی آزمائش کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ کیا یہ لوگ دیکھتے اور سبق نہیں لیتے کہ ان کو ہر سال آزمائش میں ڈالا جاتا ہے۔ ایک یا دو مرتبہ۔ کبھی قحط وخشک سالی سے اور کبھی جنگ وجدال سے اور کبھی دوسرے مصائب وآلام اور آفات وبلیات سے مگر یہ لوگ ہیں کہ اس کے باوجود نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی سبق لیتے ہیں۔ سو معلوم ہوا کہ مصائب وآلام سے سبق نہ لینا دراصل دولت ایمان سے محروم لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو ایمان و یقین کی دولت سے محرومی کے بعدانسان خیروصلاح کی دولت سے محروم ہوجاتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ بہرکیف اللہ پاک۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ چونکہ اپنی رحمت بےپایاں اور عنایت بےنہایت کی بنا پر اپنے ہر بندے پر رحمت فرمانا چاہتا ہے اس لیے اس نے اس دنیا کا نظام ہی ایسا رکھا ہے کہ ہر شخص کو خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑاسال میں ایک دو بار ضرور کسی نہ کسی آزمائش میں ڈالا جاتا ہے تاکہ وہ اللہ کی طرف رجوع کرسکے اور وہ توبہ وانابت اور اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوسکے اور اس کے نتیجے میں اس کو اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت سے سرفرازی نصیب ہوسکے۔ سو جو صاحب توفیق ہوتے ہیں وہ ایسی آزمائش سے سبق حاصل کرتے ہیں لیکن جو محروم اور بدنصیب ہوتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ وہ ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے۔ اور وہ اپنی شقاوت کی راہ پر چلتے جاتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top