(2) وضع وزر کی عنایت اور اس کا مطلب ؟ سو ارشاد فرمایا گیا کہ کیا ہم نے اتار نہیں دیا آپ سے آپ کا وہ بوجھ جو توڑے ڈال رہا تھا آپ کی کمر کو ؟ یعنی وہ معنوی بوجھ جو کہ لوگوں کو راہ حق و ہدایت پر لانے کے سلسلہ میں آپ کی انتہائی رحمت و شفقت کی بنا پر آپ کی حد درجہ حساس گرامی پر قوم کے فساد و بگاڑ کی وجہ سے سوار تھا، کہ ان کی اصلاح ہو تو کیسے ہو ؟ کفر و شرک اور بت پرستی کی اس گرم بازاری کا خاتمہ اور قلع قمع ہو تو کس طرح ہو ؟ اخلاق و کردار کے لحاظ سے حددرجہ بگڑی ہوئی اس قوم کو راہ راست پر لایا جائے تو کس طرح ؟ اور اس کے اس فساد و بگاڑ کو ختم کیا جائے تو کس طرح ؟ اور ان کو دوزخ کی آگ اور ابدی عذاب سے بچایا جائے تو کس طرح ؟ وغیرہ وغیرہ۔ سو آپ کے رب نے آپ ﷺ کو شرف رسالت سے مشرف فرما کر اور نور نبوت سے نواز کر اس کا طریقہ و راستہ اور صحیح علاج آپ کو بتادیا کہ اس تمام فساد و بگاڑ کے خاتمے اور اصلاح کا راز صرف و صرف اس امر میں مضمر ہے کہ ان لوگوں کو اپنے خالق ومالک کی صحیح معرفت حاصل ہوجائے اور ان کو اس پر سچا پکا ایمان و یقین نصیب ہوجائے، اور اسی طرح ان کو بعث بعد الموت اور عقیدہ آخرت و معاد اور نبوت و رسالت پر سچا پکا ایمان و یقین نصیب ہوجائے، سو توحیدو رسالت اور آخرت و قیامت اور بعث بعد الموت پر ایمان و یقین ہی وہ شاہ کلید ہے جس سے تمام فساد و بگاڑ کا بالکلیہ خاتمہ ہوسکتا ہے، چناچہ ایسے ہی ہوا کہ اللہ پاک کی توفیق و عنایت اور آپ کی جہد مسلسل اور سعی بلیغ سے جب وہ قوم ایمان و یقین کی قوت سے سرشار و سرفراز ہوئی تو ان لوگوں کی زندگیوں میں ایسا انقلاب آیا کہ چشم فلک نے اس کی کوئی نظیر و مثال نہ اس سے پہلے کبھی دیکھی اور نہ اس کے بعد قیامت تک کبھی دیکھ سکے گی، اور وہ قوم جو کفر و شرک کی نجاستوں میں لت پت اور بت پرستی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی وہ توحید کی علم بردار بن گئی اور دنیا نے دیکھا کہ وہ قوم جو اخلاق و کردار کے فساد میں بری طرح ڈوبی اور ہر طرح سے اس میں گھری ہوئی تھی اور کفر و ضلالت کے اندھیروں میں مستغرق تھی وہ اخلاقیات کی تعلیم و تربیت میں دنیا کی امام و پیشوا بن گئی اور جن کو اونٹ چرانا نہیں آتا تھا وہ دنیا کے ہادی اور راہنما بن گئے، عام طور پر حضرات مفسرین کرام جو اس مقام پر کہتے ہیں کہ یہاں پر " وزر " سے ماد وہ چھوٹے چھوٹے گناہ و قصور ہیں جو آنحضرت ﷺ سے نبوت کے پہلے کی زندگی میں سرزد ہوگئے تھے، سو یہ بات اگرچہ عام طور پر اس موقع پر کہی جاتی ہے اور مشہور ہے، لیکن یہ نہ تو دل کو لگتی ہے اور نہ ہی صحیح معلوم ہوتی ہے، ایک تو اس لیے کہ " وزر " کے اصل معنی گناہ کے نہیں بوجھ کے ہیں، سو بلا دلیل و قرینہ اس کو گناہ کے بوجھ کے معنی میں لینا لفظ کے لغوی معنی و مفہوم میں ایک خود ساختہ اور ناروا اضافہ کرنا ہے والعیاذ باللہ العظیم۔ اور دوسرے اس لیے کہ آنحضرت ﷺ کی حیات طیبہ کا نبوت سے پہلے کا دور بھی اتنا عمدہ و ممتاز اور اس قدر ستھرا اور پاکیزہ تھا کہ اس میں بھی اس طرح کا کوئی دھبہ آپ کی پاکیزہ زندگی میں نہیں مل سکتا، یہاں تک کہ دشمنوں کی طرف سے بھی آپ پر اس طرح کا کوئی الزام کبھی نہیں لگا تھا، اسی لیے اس دور کے بارے میں کفار کو مخاطب کر کے آپ ﷺ سے یوں کہلوایا گیا (یونس 16 پ 11) یعنی لوگو " میں اس قرآن کے پیش کرنے سے پہلے بھی اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ تمہارے درمیان گزار چکا ہوں "۔ سو جب اس سے قبل تم نے مجھ پر کسی طرح کا داغ دھبہ کبھی نہیں دیکھا تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں اب چالیس سال کی عمر کے بعد اس طرح کا کوئی افتراء اور جھوٹ باندھنے لگوں اور وہ بھی اللہ اپنے خالق ومالک پر ؟ کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اور اتنی موٹی بات بھی نہیں سمجھتے ؟ سو جس ہستی کی زندگی اس طرح کی مثال بلکہ بےمثال زندگی رہی ہو، اس کے بارے میں یہ بات کس طرح جوڑ کھا سکتی ہے کہ نبوت سے پہلے ان سے اس طرح کے کچھ قصور اور گناہ سرزد ہوگئے تھے جو آپ کی کمر توڑے ڈال رہے تھے ؟ اس لیے اس ارشاد ربانی کا صحیح معنی ومطلبوہی ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا والحمدللہ۔ بہرکیف اس " وزر " سے مراد جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا وہ بارغم ہے جو بعثت سے پہلے آپ کے قلب مبارک پر اپنی قوم کی ہدایت سے متعلق سوار تھا، آپ حقیقت میں حیراں و سرگرداں تھے، مگر اس کا کوئی سراغ آپ کو نہیں مل رہا تھا، پھر جب اللہ تعالیٰ نے شرف نبوت سے سرفراز فرما کر آپ پر ہدایت کی راہ کھولی، تو اب مزید غم اس بنا پر لاحق ہوگیا کہ آپ کی پوری قوم اس دعوت حق کی دشمن بن کر کھڑی ہوگئی، اور جب دعوت حق میں صدمہ لاحق ہوگیا کہ کہیں یہ میری جدوجہد میں کسی کمی یا خامی کا نتیجہ تو نہیں تو اس بنا پر میری یہ دعوت اثر انداز نہیں ہورہی، جس کی بنا پر آپ کو حق تعالیٰ کی طرف سے تسلی دی جاتی، کہ نہیں ایسا نہیں آپ کی دعوت میں کوئی تقصیر اور کوتاہی نہیں بلکہ یہ ان لوگوں کے عناد اور ان کی ہٹ دھرمی کا نتیجہ ہے کہ یہ راہ حق و ہدایت سے اس طرح منہ موڑے ہوئے ہیں، جیسا کہ قرآن حکیم کے دوسرے مختلف مقامات میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ مثلا ایک مقام پر اس بارے میں ارشاد فرمایا گیا " فلا تذھب نفسک علیھم حسرات " یعنی آپ ان لوگوں کے پیچھے غم اور افسوس میں اپنی جان جو ہلکان نہ کریں۔