بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Madarik-ut-Tanzil - Al-Hujuraat : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے لَا تُقَدِّمُوْا : نہ آگے بڑھو بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ : اللہ کے آگے وَرَسُوْلِهٖ : اور اسکے رسول کے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ : سننے والا جاننے والا
مومنو ! (کسی بات کے جواب میں) خدا اور اسکے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو بیشک خدا سنتا جانتا ہے
آیت 1 : یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا قدمہ و اقدمہ یہ حشو و ہمزہ کے ثقیل ہونے کی وجہ سے قدمہ سے منقول ہیں جبکہ وہ آگے بڑھے سبقت کرلے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہے۔ یقدم قومہ۔ [ ہود : 98] مفعول کو یہاں حذف کیا گیا۔ تاکہ قول و فعل جس میں سبقت کی جاتی ہے۔ ان سب کو شامل ہو اور یہ بھی درست ہے کہ مفعول کا قصد نہ کیا جائے۔ اور نفس تقدم کی طرف متوجہ ہو۔ جیسا کہ اس ارشاد میں ہے۔ وہوالذی یحییٰ ویمیت۔ ] المؤمنون۔ 80[ نمبر 2۔ یا یہ قدم بمعنی تقدم سے لیا جائے۔ جیسا کہ وجہ بمعنی توجہ آتا ہے اور اسی سے مقدمۃ الجیش ہے۔ ایک ایسی جماعت جس کو لشکر سے آگے بھیجا جائے۔ اس کی تاکید قراءت ِیعقوب سے ہوتی ہے۔ قراءت : لا تقدَّموا تتقدموا کی ایک تاء کو حذف کر کے یعقوب نے پڑھا۔ تعظیم رسول کا حکم : بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ عرب کہتے ہیں جلست بین یدی فلان۔ جبکہ تم یمین و شمال کو چھوڑ کر اس کے قریب بیٹھو۔ دونوں جہتوں کو یدین سے تعبیر کیا گیا۔ کیونکہ وہ دونوں ہاتھوں کی سمتوں میں پائی جاتی ہیں۔ ان اطراف سے قرب کے باوجود توسعاً ایسا کیا گیا ہے۔ جیسا کہ کسی چیز کو مجاورت کی وجہ سے کسی اور نام سے پکار لیتے ہیں۔ اس عبارت میں مجاز کی قسم تمثیل پائی جاتی ہے اور اس میں ایک عظیم الشان فائدہ ہے۔ فائدہ جلیلہ : یہ اس شناعت اور برائی کی تصویر ہے جو اس صورت میں پائی جاتی ہے۔ جبکہ وہ کتاب و سنت کی امثلہ کی اتباع کی بجائے امور منہیہ میں سے کسی امر کا ارتکاب کرے۔ نمبر 2۔ اور یہ بھی درست ہے کہ یہ تمہارے اس قول کی طرح ہو۔ سَرّنی زیدٌ و حُسنُ حالہ۔ یعنی سرنی حسن حال زید۔ اسی طرح یہاں معنی بین یدی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے سامنے۔ اس اسلوب کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے اختصاص اور قوی تر ہوجاتا ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ کا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ مرتبہ ومقام ہے۔ اسی لئے اس انداز کو اختیار کیا گیا۔ اس میں اس ناراضگی والی بات کی تمہید ہے جو ان سے ہوئی یعنی رسول اللہ ﷺ کی آواز سے ان کی آواز بلند ہوئی۔ کیونکہ جس ہستی کا یہ مرتبہ اور عظمت ہو اور ایسی خصوصیت عنایت فرمائی ہو اور ان کے ادب کا سب سے کم درجہ یہ ہے کہ ان کے سامنے آواز پست رکھی جائے اور ان کے ساتھ انتہائی تأدب و تعظیم سے پیش آئیں۔ قولِ حسن (رح) : بعض لوگوں نے عید الاضحی کے دن نماز عید سے قبل جانور ذبح کر ڈالے۔ پس یہ آیت اتری۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کو قربانی کے اعادہ کا حکم فرمایا۔ (رواہ عبدالرزاق) قولِ عائشہ ؓ : اس میں یوم شک کے روزے سے منع کیا گیا ہے اسی سلسلہ میں یہ آیت اتری ہے۔ (ذکرہ دارقطنی) وَاتَّقُوا اللّٰہَ (اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو ! ) اگر اس سے ڈرو گے تو تقویٰ تمہیں مناہی کے ارتکاب سے محفوظ کر دے گا۔ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ (بیشک اللہ سننے والے ہیں) ان سب باتوں کو جو تم کہتے ہو۔ عَلِیْمٌ (اور جاننے والے ہیں) جو تم کرتے ہو۔ اور ایسی سمیع وبصیر وعلیم ہستی کا حق یہ ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔
Top