Ruh-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 70
فِیْهِنَّ خَیْرٰتٌ حِسَانٌۚ
فِيْهِنَّ خَيْرٰتٌ : ان میں اچھی عورتیں ہیں۔ بہترین عورتیں ہیں حِسَانٌ : خوبصورت
ان میں خوب سیرت اور خوبصورت بیویاں ہوں گی
فِیْھِنَّ خَیْرٰتٌ حِسَانٌ۔ فَبِاَیِّ اٰ لَآئِ رَبِّـکُمَا تُـکَذِّبٰنِ ۔ حُوْرٌ مَّقْصُوْرٰتٌ فِی الْخِیَامِ ۔ فَبِاَیِّ اٰ لَآئِ رَبِّـکُمَا تُـکَذِّبٰنِ ۔ لَمْ یَطْمِثْھُنَّ اِنْسٌ قَبْلَھُمْ وَلاَ جَآنٌّ۔ فَبِاَیِّ اٰ لَآئِ رَبِّـکُمَا تُـکَذِّبٰنِ ۔ (الجن : 70 تا 75) (ان میں خوب سیرت اور خوبصورت بیویاں ہوں گی۔ تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلائو گے۔ حوریں خیموں میں رہنے والیاں۔ تم اپنے رب کے کن کن انعامت کو جھٹلائو گے۔ ان سے پہلے ان کو نہ کسی انسان نے چھوا ہوگا، نہ کسی جن نے۔ تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلائو گے۔ ) اصحابُ الیمین کو بھی جو بیویاں ملیں گی ان کے بھی دو وصف نمایاں ہوں گے۔ ایک یہ کہ وہ پاکیزہ سیرت ہوں گی اور دوسرا یہ کہ وہ پاکیزہ صورت ہوں گی۔ سیرت کا ذکر صورت سے پہلے فرمایا گیا تاکہ معلوم ہو کہ سیرت دراصل صورت کی محافظ ہے۔ اس کے بعد آیت ترجیع ہے۔ پھر فرمایا ایسی حوریں ہوں گی جو خیموں میں ٹھہرائی جائیں گی۔ خیموں کی رہائش اہل عرب کی پسندیدہ رہائش رہی ہے۔ ان کے ذوق کا لحاظ کرتے ہوئے یہاں خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے۔ دورِجاہلیت کا لٹریچر پڑھ کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امرائے عرب کے خیمے اور شامیانے ان کے شاندار محلوں کے لیے بھی قابل رشک ہوتے تھے۔ اور یہاں تو جنت کے خیموں کا ذکر ہے جن کی خوبصورتی کا آج تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہم محض استفادے کے لیے تفہیم القرآن کا ایک اقتباس دے رہے ہیں کہ اسے بھی ایک نظر دیکھ لیا جائے۔ اغلب یہ ہے کہ اہل جنت کی بیویاں ان کے ساتھ ان کے قصروں میں رہیں گی اور ان کی سیرگاہوں میں جگہ جگہ خیمے لگے ہوں گے جن میں حوریں ان کے لیے لطف و لذت کا سامان فراہم کریں گیں ہمارے اس قیاس کی بنا یہ ہے کہ پہلے خوب سیرت اور خوبصورت بیویوں کا ذکر کیا جا چکا ہے اس کے بعد اب حوروں کا ذکر الگ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ یہ ان بیویوں سے مختلف قسم کی خواتین ہوں گی۔ اس قیاس کو مزید تقویت اس حدیث سے حاصل ہوتی ہے جو حضرت ام سلمہ سے مروی ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ ” میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا، یارسول اللہ ﷺ ، دنیا کی عورتیں بہتر ہیں یا حوریں ؟ حضور ﷺ نے جواب دیا، دنیا کی عورتوں کو حوروں پر وہی فضیلت حاصل ہے جو ابرے کو استر پر ہوتی ہے۔ میں نے پوچھا کس بنا پر ؟ فرمایا اس لیے کہ ان عورتوں نے نمازیں پڑھی ہیں، روزے رکھے ہیں اور عبادتیں کی ہیں۔ “ (طبرانی) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل جنت کی بیویاں تو وہ خواتین ہوں گی جو دنیا میں ایمان لائیں اور اعمال صالحہ کرتی ہوئی دنیا سے رخصت ہوئیں۔ یہ اپنے ایمان و حُسنِ عمل کے نتیجے میں داخل جنت ہوں گی اور بذات خود جنت کی نعمتوں کی مستحق ہوں گی۔ یہ اپنی مرضی اور پسند کے مطابق یا تو اپنے سابق شوہروں کی بیویاں بنیں گی اگر وہ بھی جنتی ہوں یا پھر اللہ تعالیٰ کسی دوسرے جنتی سے ان کو بیاہ دے گا جبکہ وہ دونوں ایک دوسرے کی رفاقت پسند کریں۔ رہیں حوریں، تو وہ اپنے کسی حُسنِ عمل کے نتیجے میں خود اپنے استحقاق کی بنا پر جنتی نہیں بنیں گی بلکہ اللہ تعالیٰ جنت کی دوسری نعمتوں کی طرح انھیں بھی اہل جنت کے لیے ایک نعمت کے طور پر جواں اور حسین و جمیل عورتوں کی شکل دے کر جنتیوں کو عطا کردے گا تاکہ وہ ان کی صحبت سے لطف اندوز ہوں۔ لیکن بہرحال یہ جن و پری کی قسم کی مخلوق نہ ہوں گی، کیونکہ انسان کبھی صحبت ناجنس سے مانوس نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اغلب یہ ہے کہ یہ وہ معصوم لڑکیاں ہوں گی جو نابالغی کی حالت میں فوت ہوگئیں اور ان کے والدین جنت کے مستحق نہ ہوئے کہ وہ ان کی ذُرِّیت کی حیثیت سے جنت میں ان کے ساتھ رکھی جائیں۔ (تفہیم القرآن) اس کے بعد آیت ترجیع ہے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اصحابُ الیمین کو جو بیویاں عطا کرے گا انھیں نہ کسی انسان اور کسی جن نے ہاتھ تک نہیں لگایا ہوگا۔ اس کی تشریح پہلے ہوچکی ہے۔ اور اس کے بعد آیت ترجیع ہے جس کا مفہوم واضح ہے۔
Top