Mafhoom-ul-Quran - Al-An'aam : 159
اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِیْ شَیْءٍ١ؕ اِنَّمَاۤ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے فَرَّقُوْا : تفرقہ ڈالا دِيْنَهُمْ : اپنا دین وَكَانُوْا : اور ہوگئے شِيَعًا : گروہ در گروہ لَّسْتَ : نہیں آپ مِنْهُمْ : ان سے فِيْ شَيْءٍ : کسی چیز میں (کوئی تعلق) اِنَّمَآ : فقط اَمْرُهُمْ : ان کا معاملہ اِلَى اللّٰهِ : اللہ کے حوالے ثُمَّ : پھر يُنَبِّئُهُمْ : وہ جتلا دے گا انہیں بِمَا : وہ جو كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ : کرتے تھے
جن لوگوں نے اپنے دین میں بہت سے رستے نکالے اور کئی کئی فرقے ہوگئے ان سے تم کو کچھ کام نہیں ان کا کام اللہ کے حوالے پھر جو جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں اللہ ان کو سب کچھ بتائے گا۔
فرقہ بندی کا نقصان، خالص توحید، انسان کی نیابت تشریح : یہ سورة الانعام کی آخری آیات ہیں اور ان میں بیشمار مسائل کا حل بتایا گیا ہے۔ مسلمانوں میں کئی فرقے بن چکے ہیں۔ فرقہ بندی کسی بھی قوم کو کمزور کرنے کا بہت بڑا سبب ہے اس لیے قومی ترقی، کامیابی اور مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ فرقہ پرستی اور گروہ بندی سے بچا جائے۔ رسول اللہ ﷺ کو مسلمانوں کی گروہ بندی سے فکر ہوتی تھی تو رب العلمین نے ان سے کہا کہ آپ اس بات کی ہرگز فکر نہ کریں کیونکہ آپ کا کام تھا تعلیم دینا وہ آپ نے دیدی اب اس پر عمل کرنا نہ کرنا یا اس کو بگاڑ دینا یہ سب ہر شخص کا ذاتی عمل ہے جو بھی غلط کام یا شریعت سے ہٹ کر کام کرے گا وہ عذاب پائے گا کیونکہ بالآخر سب نے اللہ تعالیٰ کے سامنے ضرور پیش ہونا ہے اور اپنے کئے ہوئے اعمال کا جواب بھی ضرور دینا ہے۔ آپ ﷺ فکر نہ کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھر جدا ہوگیا اس نے اسلام کا قلادہ (ہار، پہچان) اپنی گردن سے اتار دیا۔ (رواہ ابو دائود و احمد) جماعت سے مراد ہے اللہ و رسول ﷺ کی جماعت۔ پھر اللہ رب العزت کے انصاف اور رحم و کرم کا ذکر کیا گیا ہے کہ اس کی رحمت کا انداز یہ ہے کہ قیامت کے دن جو بھی شخص ایک نیکی لیکر جائے گا اللہ رب العزت خوش ہو کر اس کو دس نیکیوں کے برابر کا بدلہ دے گا۔ اور جو ایک گناہ لے کر جائے گا اس کو صرف ایک ہی گناہ کی سزا دی جائے گی یہ تو ایک مثال ہے اس کے کرم کی، ورنہ یہ دین، کتاب اور پھر انبیاء کے سردار حضرت محمد ﷺ یہ سب کچھ اس کی رحمت ہی تو ہے۔ حضور ﷺ کو اللہ رب العزت ہدایت کر رہے ہیں کہ آپ کہہ دیں کہ مجھے تو اللہ نے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، یعنی دین ابراہیمی، خاص طور پر ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ اتنے برگزیدہ، صالح اور بہترین اللہ کے پسندیدہ انسان تھے کہ انہوں نے کبھی شرک نہ کیا تھا جب ان کے باپ، دادا اور تمام عزیز و اقارب پکے کافر اور مشرک تھے۔ اللہ نے ان کو اتنی عزت دی کہ وہ تمام مذاہب کے لوگوں کے پسندیدہ انسان ہیں اور امامت و بزرگی کا اعلیٰ ترین مقام اللہ نے ان کو عطا کیا ہے۔ جس طرح سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے سوا کسی کے فرمان بردار نہ تھے اسی طرح حضرت محمد ﷺ بھی اللہ کے حکم سے فرماتے ہیں کہ میری زندگی، موت، اٹھنا بیٹھنا، میری نماز، میری قربانی غرض میرا سب کچھ صرف اور صرف اللہ کے لیے ہی ہے اس میں کوئی دوسرا شامل ہو ہی نہیں سکتا اور میں سب سے یہی کہتا ہوں کہ نیکی کا راستہ اختیار کرو اور ہر وقت اپنے اعمال پر نظر رکھو کیونکہ اللہ نے تمہیں اپنا نائب بنا کر دنیا میں بھیجا ہے اکثر مخلوقات سے بلند درجہ انسان کو دیا گیا ہے، اس لیے اس کی ذمہ داری اور حساب کتاب بھی سخت ہوگا۔ اس معاملہ میں کسی کو کوئی رعایت نہ دی جائے گی۔ سب لوگ اپنے کئے کا خود حساب دیں گے کیونکہ دنیا میں تو صرف آزمائش ہی آزمائش ہے کسی کو عزت دیکر آزمایا کسی کو دولت دیکر، کسی کو ذلت دیکر اور کسی کو غربت دیکر۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کا شکر، اس کی فرمانبرداری اسی میں ہے کہ اپنا ہر عمل اللہ کے لیے کیا جائے۔ زیادہ دولت مل جائے تو سرکش نہ ہوا جائے، عزت مل جائے تو اللہ کا نافرمان نہ ہوجائے، غربت میں بھی شکر اور نیکی کی راہ اختیار کئے رکھے یہ نہیں کہ مال و دولت کے حصول کے لیے غلط راستے اختیار کرلے۔ چوری، ڈاکہ یا قتل و غارتگری شروع کر دے۔ علم بھی آزمائش کا ذریعہ ہے کہ کوئی عالم اس سے غلط فائدہ نہ اٹھائے لوگوں کو اپنے علم سے فائدہ پہنچائے۔ غرض انسان کا ہر رتبہ جو اس کو اللہ نے عطا کیا ہے اس میں اس کی آزمائش ہے۔ کیا لیڈر، کیا استاد اور کیا عالم بلکہ ماں، بچہ، باپ، درزی، نائی، دھوبی، زمیندار، مزدور، طالب علم، غرض زندگی کا ہر قدم اللہ کی نظر میں ہے اس لیے ایک قدم بھی نہ تو غلط اٹھایا جائے نہ غفلت کی جائے اور نہ ہی یہ سمجھا جائے کہ کونسا ہمیں کوئی دیکھ رہا ہے، اللہ دیکھ رہا ہے وہ عذاب ضرور دے گا اور ثواب بھی ضرور دے گا۔ سورة الانعام کا شروع اللہ کی تعریف سے ہوا تھا آخر اس کی مغفرت سے ہو رہا ہے۔ اللہ ہمیں اپنی (اللہ کی) تعریف کرنے کی اور قدم قدم پر مغفرت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین۔ خلاصہسورۃ الانعام الحمد للہ سورة الانعام مکمل ہوگئی ہے اللہ کی رحمتیں، برکتیں اور اس کی مدد شامل حال ہونی چاہیے۔ اس سورت میں اسلام کے بنیادی اصول بڑی وضاحت سے بیان کئے گئے ہیں۔ جن سے اسلامی سوسائٹی اور اسلامی حکومت کا نقشہ واضح کیا گیا ہے، زندگی گزارنے کا ہر اصول بڑی خوبصورتی سے بتایا گیا ہے جس میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہم دنیا میں نہ تو بےمقصد پیدا کئے گئے ہیں اور نہ ہی شتر بےمہار کی طرح۔ بلکہ رب العزت نے انسان کو اپنا خلیفہ کہہ کر اسے اپنی اطاعت کا پابند کردیا ہے اور پھر اچھی طرح سمجھا دیا گیا ہے کہ تمام اعمال کا جواب اللہ کے حضور ضرور دینا ہوگا۔ صرف جواب ہی نہیں دینا بلکہ انعام یا سزا بھی ملے گی۔ وہ ہر ایک کو نعمتیں دیتا ہے یہ دیکھنے کے لیے کہ ہر شخص اس کی دی گئی نعمت کو کس طرح استعمال کرتا ہے ؟ غلط استعمال کرتا ہے یا ٹھیک ؟ مثلاً امیر کو چاہیے دولت کو غلط کاموں میں بےدردی سے نہ اڑائے۔ وہی کام کرے جن کا حکم اللہ نے دیا ہے۔ عیش و عشرت میں اللہ کو نہ بھول جائے اسلام کے پانچوں ارکان پر باقاعدہ عمل کرے، یعنی توحید، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج۔ ان ارکان کو بڑی وضاحت سے کئی بار بیان کیا جاچکا ہے یہ انسان کو زندگی کی تمام غلاظتوں سے پاک کر کے روحانی بلندی عطا کرتے ہیں۔ اسی طرح غریب کو چاہیے۔ قناعت اور شکر کا خیال رکھتے ہوئے ارکان اسلام کی پابندی کرے۔ اسی طرح تمام اخلاقی خوبیاں اس کے اندر آجاتی ہیں اور پھر معاملہ آتا ہے اسلامی ریاست کا۔ تو اس کے لیے اگر ہم مدینہ کی نئی اسلامی ریاست جو ہجرت رسول ﷺ کے بعد وجود میں آئی۔ مثال کے طور پر اپنے سامنے رکھیں تو تمام معاملات کھل کر ہمارے سامنے آجاتے ہیں۔ عرب دنیا کے اکھڑ ترین، بگڑے ہوئے، بدکردار گناہوں اور بےراہروی میں ڈوبے ہوئے لوگ کس طرح دنیا کی بہترین، سلجھی ہوئی قوم اور کامیاب و کامران قرار پائے یہ قرآن و سنت کی برکت سے ہوا جو نبی اکرم ﷺ کے ذریعہ سے ان تک پہنچا۔ مولانا حالی نے ” مسدس حالی “ میں کیا خوب نقشہ کھینچا ہے۔ وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی عرب کی زمین جس نے ساری ہلا دی مدینہ کا نیا معاشرہ اور نئی تہذیب مسلم ملک کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ مدینہ کے معاشرہ میں ظلم و جبر، نفرت، رنگ و نسل، قوم و وطن، آقا و غلام کا فرق ناپید ہوگیا۔ یہ تمام اصلاحات مدینہ میں کی گئیں جن کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام معاشرہ چوری، ڈکیتی، شراب، جوا، بےشرمی، بےحیائی، قتل، جھوٹ، فریب، غیبت، وعدہ خلافی اور سود جیسی تمام برائیوں سے بالکل پاک صاف ہوگیا اور یوں اسلام دنیا پر معزز ہونا شروع ہوا۔ دراصل اسلام ایک فطری دین ہے۔ یعنی اسلام کی تعلیمات کو غور سے دیکھیں تو کون عاقل انسان یہ کہے گا کہ صداقت، دیانت، امن سکون، انصاف، سخاوت، شجاعت اور اخلاص بری باتیں ہیں۔ یہ تمام اصول اور خصوصیات ایسی ہیں کہ جو وقت کے ساتھ ساتھ نہ کمزور ہوتی ہیں نہ ختم ہوتی ہیں اور نہ ہی پرانی ہوتی ہیں بلکہ جو بھی ان کو اپنا لیتا ہے دنیا و آخرت میں نجات پالیتا ہے۔ جب تک مسلمانوں نے اسلامی تعلیمات پر عمل کیا کا میابیاں ان کے قدم چومتی رہیں۔ جیسے جیسے وہ مذہب سے دور ہوتے گئے۔ تنزل کی طرف بڑھتے چلے گئے۔ ناکام ہوئے اور ذلیل و خوار ہوئے۔ اللہ کی رحمتوں کا ذکر ہر وقت کرتے رہنا چاہیے اور روز قیامت کو ہر وقت یاد رکھنا چاہیے۔ میں دیکھ رہی ہوں کہ ہمارے بچے اور جوان اللہ کے راستہ پر بڑی تیزی سے چلنے کی کوشش کر رہے ہیں اللہ ہماری مدد کرے۔ آمین ثم آمین۔ ہماری یہی دعا ہے : عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے نگاہ مسلمان کو تلوار کر دے بہترین زندگی گزارو مگر امتحان کو ہر دم یاد رکھو۔ اللہ خالق ومالک ہے بڑا مہربان ہے مگر بڑے انصاف کے ساتھ سزا یا جزا ضرور دے گا۔ یہ بالکل سچی اور پکی بات ہے قرآن پاک میں یہ وعدہ بیشمار دفعہ یاد کروایا گیا ہے۔ آخر میں بتاتی چلوں کہ الانعام کا لفظی مطلب ہے مویشی۔ اس سورت میں خاص طور سے اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری کا ذکر کیا گیا ہے یہ جانور انسان کے لیے پیدا کئے گئے ہیں قربانی کے لیے بھی انہیں مویشیوں کو مشروع قرار دیا گیا ہے اور ان سے انسان گوشت، دودھ، اون اور چمڑا بھی حاصل کرتا ہے اور بڑے جانور سواری کے کام بھی آتے ہیں۔ جاہلیت کے زمانے میں ان کے حلال و حرام کا جو خود بنایا ہوا طریقہ تھا اس کو ختم کر کے اللہ نے حرام اور حلال کی حدود بتا دیں۔ کیونکہ حرام و حلال خوراک انسان کی جسمانی اور روحانی صحت کے لیے اچھے اور برے اثرات رکھتی ہے تو اللہ نے اپنی مہربانی سے اس کی وضاحت بھی کردی کہ مسلمان کسی بھی قسم کے نقصان میں نہ پڑیں۔
Top