1۔ (دنیا سے وفات پاکر) آیت میں اس عام حقیقت کا بیان ہے کہ دنیوی جاہ ومال، سامان وقوت و شوکت پر فخر وناز اور ان کی محبت وطلب، آخرت فراموش انسان کے قلب پر غفلت کے پردے ڈالے رہتی ہیں، اور اس میں خوف خدا و خشیت الہی پیدا ہی نہیں ہونے دیتیں، یہاں تک کہ موت کا وقت آجاتا ہے، اور انسان قبر میں پہنچ جاتا ہے، (آیت) ” الھکم “۔ الھاء کے معنی لہو میں ڈال دینے کے ہیں، مراد یہ ہے کہ دنیوی مشاغل میں انہماک چیز ہی ایسی ہے، جو انسان کا خیال، آخرت کی طرف جانے ہی نہیں دیتی اور اسے سدا فکر آخرت سے غافل رکھتی ہے۔ (آیت) ” التکاثر “۔ یعنی سامان دنیوی کی حرص وہوس، دنیا کا ہو کا، اور مال وجاہ میں ایک دوسرے پر تفوق و غلبہ کی طلب، التباری فی کثرۃ المال والعز (راغب) التباری بکثرۃ الجاہ والمال والمناقب (کبیر) یہاں اس کے تحت میں دنیوی مفاخرت کی ساری ہی چیزیں داخل ہیں، یدخل فیہ التکاثر بالعدد وبالمال والجاہ والاقرباء والانصار والجیش وبالجملۃ فیدخل فیہ التکاثر بکل مایکون من الدنیا والذا تھا وشھواتھا (کبیر) شان نزول کی روایتوں میں آتا ہے کہ جاہلیت میں ہر قبیلہ کی عام عادت دوسرے قبیلہ پر اپنی کثرت آبادی اور کثرت سامان کی بناء پر تفوق جتانے کی تھی، جیسے آج بیسویں صدی کی ” مہذب “ حکومتوں کو فخر وناز اپنی اپنی (MAn Power.) پر رہا کرتا ہے۔