Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 23
وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا١ؕ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا
وَقَضٰى : اور حکم فرمادیا رَبُّكَ : تیرا رب اَلَّا تَعْبُدُوْٓا : کہ نہ عبادت کرو اِلَّآ اِيَّاهُ : اس کے سوا وَبِالْوَالِدَيْنِ : اور ماں باپ سے اِحْسَانًا : حسن سلوک اِمَّا يَبْلُغَنَّ : اگر وہ پہنچ جائیں عِنْدَكَ : تیرے سامنے الْكِبَرَ : بڑھاپا اَحَدُهُمَآ : ان میں سے ایک اَوْ : یا كِلٰهُمَا : وہ دونوں فَلَا تَقُلْ : تو نہ کہہ لَّهُمَآ : انہیں اُفٍّ : اف وَّلَا تَنْهَرْهُمَا : اور نہ جھڑکو انہیں وَقُلْ : اور کہو لَّهُمَا : ان دونوں سے قَوْلًا : بات كَرِيْمًا : ادب کے ساتھ
اور تیرے پروردگار نے حکم دے رکھا ہے کہ بجز اسی (ایک رب) کے اور کسی کی پرستش نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک رکھنا،34۔ اگر وہ تیرے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں ان دونوں میں سے ایک یا وہ دونوں تو تو ان ان سے ہوں بھی نہ کہنا اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے ادب کے ساتھ بات چیت کرنا،35۔
34۔ ماں باپ کی خدمت کرتے رہنا شریعت اسلامی کے اہم ترین واجبات میں سے ہے۔ تہذیب فرنگ کی طرح شریعت اسلامی کا یہ فتوی نہیں کہ لڑکا جب عاقل وبالغ اور صاحب اختیار ہوجائے تو بیوی کے ساتھ اپنا الگ گھر بار کرلے اور بوڑھے ماں باپ سے تعلق اگر رکھے بھی تو محض دور کا اور ضابطہ کا۔ ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی۔ (آیت) ” وبالوالدین احسانا “۔ یہ فقرہ جس میں خدمت والدین کا حکم ہے اس کا عطف اس فقرہ پر جس میں توحید اور منع شرک کا حکم ہے خود اس امر پر ایک دلیل ہے کہ شریعت میں خدمت والدین کا درجہ کتنا اہم وبلند ہے۔ بین اللہ تعالیٰ بھذہ الایۃ تاکید حق الابوین الامر بالاحسان الیھما الی الامر بالتوحید (جصاص) آیت میں کوئی نسخ و تخصیص نہیں، والدین اگر مشرک ہیں تو ان کے حق میں دعائے ہدایت جاری رہنا چاہیے اور اگر مومن ہیں تو دعائے رحمت، لانسخ ولا تخصیص لان الوالدین اذا کانا کافرین فلہ ان یدعوا لھما بالھدایۃ والا رشاد وان یطلب الرحمۃ لھما بعد حصول الایمان (کبیر) فقہاء نے لکھا ہے کہ والدین اگر مشرک ہوں جب بھی ان کے ساتھ حسن معاشرت واجب ہے بجز اس کے کہ باب شرک میں ان کی اطاعت نہ کی جائے۔ فامر بمصاحبۃ الوالدین المشرکین بالمعروف مع النھی عن طاعتھما فی الشرک (جصاص) 35۔ دنیا میں اس سطح ارض پر ایسی ایسی مہذب وشائستہ قومیں بھی گزری ہیں جن کے ہاں دستور یہ تھا کہ جب والدین بوڑھے ہو کر قوم کے لئے بیکار بلکہ اس پر ایک بار ہوجاتے تھے تو سعادتمند صاحبزادے انہیں لے جاکر کسی سنسان پہاڑی وغیرہ پر چھوڑ آتے تھے کہ وہیں پڑے پڑے مرجائیں یا کسی جنگلی جانور کی غذا بن جائیں۔ (آیت) ” اما یبلغن عندک الکبر “۔ بڑھاپے کا ذکر اس لئے فرمایا گیا کہ اسی سن میں والدین معذور ہو کر دوسروں کی خدمت کے محتاج ہوجاتے ہیں اور اسی سن میں ان کی خدمت طبیعت کو گراں گزرنے لگتی ہے۔ ایک حدیث نبوی میں بھی یہ مضمون آیا ہے کہ بڑا بدقسمت ہے وہ شخص جو اپنے والدین کا بڑھاپا پائے اور پھر انہیں خوش کرکے ان کی دعاؤں سے اپنے کو جنت کا مستحق نہ بنالے۔ (آیت) ” فلاتقل لھما اف “۔ جب ان کے سامنے ہوں کرنے کی بھی ممانعت ہوگئی تو ظاہر ہے کہ جو چیزیں اس سے بڑھ کر ان کے مقابلہ میں گستاخانہ یا ان کے حق میں تکلیف دہ ہیں۔ ان کی ممانعت تو کہیں زائد ہوگی، حکم قرآنی سے مراد صرف یہ ہے کہ والدین کو قولا فعلا بڑی چھوٹی کسی قسم کی بھی اذیت پہنچانا جائز نہیں صرف لفظ ” اف “ کے تلفظ سے روکنا ہرگز مقصود نہیں۔ ثم انھم تو سعوا فذکروا ھذہ اللفظۃ عند کل مکروہ یصل الیھم (کبیر) لاتقل لفلان اف مثل یضرب للمنع من کل مکروہ واذیۃ وان خف وقل (کبیر) المقصود من ھذا الکلام المبالغۃ فی تعظیم الوالدین (کبیر) (آیت) ” وبالوالدین احسانا “۔ سے اگر والدین کے ساتھ عمل میں لطف ونرمی کا حکم نکلا تو فلا تقل لھما اف ولا تنھرھما سے قول میں ان کے ساتھ ادب اور تمیز داری کی تاکید نکلی اور (آیت) ” وقل لھما قولا کریما “۔ سے مخاطبت وگفتگو میں ان کے ادب و عظمت کے لحاظ رکھنے کا حکم نکل آیا۔
Top