Fahm-ul-Quran - Al-Ahzaab : 2
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ
وَ إِذَا : اور جب قِيلَ : کہاجاتا ہے لَهُمْ : انہیں لَا تُفْسِدُوا : نہ فسا دپھیلاؤ فِي الْأَرْضِ : زمین میں قَالُوْا : وہ کہتے ہیں اِنَّمَا : صرف نَحْنُ : ہم مُصْلِحُوْنَ : اصلاح کرنے والے
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد مت پھیلاؤ30 تو کہتے ہیں کہ ارے ! ہم تو اصلاح کررہے ہیں31
30 ۔ اس سے معلوم ہوا کہ قانون شریعت کے علاوہ کسی دین جاہلی پر قائم رہنا، اس کے طور طریقوں کی اشاعت کرنا فسادفی الارض کے مرادف ہے۔ امن عالم ونظام اقوام قائم جئب ہی رہ سکتا ہے جب عملدرآمد قانون شریعت پر رہے۔ اس راہ سے انحراف، بلکہ سرموتجاوز کرنا بھی دنیا کو بدنظمی، ابتری، کشت وخون اور ہر قسم کی طبقاتی جنگ وکشمکش کو دعوت دنیا ہے۔ چناچہ دنیا عملا اس کا تجربہ بارہا کرچکی ہے، اور اس وقت بھی رہی ہے۔ اسلام کے اس پہلو پر کہ وہ نظام عالم کا بہترین ضامن ہے، اللہ مراتب میں اضافہ کرے، ہمارے زمانہ میں اقبال نے شاعرانہ زبان میں خوب ہی لکھ دیا ہے۔ (آیت) ” واذا قیل لھم “ اس قول کا قائل کون تھا ؟ بعض نے اس کا قائل رسول اللہ ﷺ کو قرار دیا ہے اور بعض نے عام مومنین کو، اور کسی نے اللہ تعالیٰ کو بھی۔ الفاظ میں گنجائش ان سب کی ہے۔ وکل ذلک محتمل (کبیر) 31 ۔ (اور الٹا ہم ہی پر ہی الزام فساد وتخریب کا لگ رہا ہے ! ) جواب بعینہ وہ ہے جو آج بھی خدا معلوم امت کے اندر کے کتنے منافقوں کی زبان پر ہے۔ دین میں رخنے قدم قدم پر ڈالتے جاتے ہیں۔ اور زبان پر دعوے وہی تجدد کے، تجدید کے، اصلاح کے تعمیر کے ہیں، (آیت) ” نحن مصلحون “ کے معروف معنی تو یہی ہیں کہ یہ لوگ زبانی دعوی اپنے دین حق پر قائم ہونے کا رکھتے تھے۔ قالوا انما نحن علی الھدی مصلحون (ابن جریر۔ عن مجاہد) دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ ہم تم لوگوں کے درمیان صلح کرانے والے ہیں۔ محمدی اور غیر محمدی کے درمیان جو کشمکش ہے، اس کے مٹانے والے ہیں۔ قالوا انما نرید الا صلاح بین الفریقین من ال مومنین واھل الکتب (ابن جریر، عن ابن عباس ؓ انما کلمہ حصر ہے۔ اردو میں زور کا یہ مفہوم لفظ ” ارے “ سے ادا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
Top