Tafseer-e-Jalalain - Al-Ahzaab : 56
اِنَّ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ بِغَیْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰىهُمْ١ۙ اِنْ فِیْ صُدُوْرِهِمْ اِلَّا كِبْرٌ مَّا هُمْ بِبَالِغِیْهِ١ۚ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يُجَادِلُوْنَ : جھگڑتے ہیں فِيْٓ : میں اٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیات بِغَيْرِ : بغیر سُلْطٰنٍ : کسی سند اَتٰىهُمْ ۙ : ان کے پاس آئی ہو اِنْ : نہیں فِيْ : میں صُدُوْرِهِمْ : ان کے سینے (دل) اِلَّا : سوائے كِبْرٌ : تکبر مَّا هُمْ : نہیں وہ بِبَالِغِيْهِ ۚ : اس تک پہنچنے والے فَاسْتَعِذْ : پس آپ پناہ چاہیں بِاللّٰهِ ۭ : اللہ کی اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ السَّمِيْعُ : وہی سننے والا الْبَصِيْرُ : دیکھنے والا
جو لوگ بغیر کسی دلیل کے جو ان کے پاس آئی ہو اللہ کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں ان کے دلوں میں اور کچھ نہیں سوائے کبر و غرور کے مگر وہ اس بڑائی کو پہنچنے والے نہیں تو اللہ کی پناہ مانگو بیشک وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
ذکر قیامت ‘ عبادت کی روح دعا تشریح : ان آیات میں فرعون کی مثال دیکر یہ سمجھایا گیا ہے کہ اس کو اور اس کے ساتھیوں کو تمام نشانیاں خوب کھول کر بیان کردی گئیں مگر وہ نہ مانے تو ان کی بڑائی اور غرور نے ان کو ذلیل و خوار کردیا۔ سب نشانیاں دیکھ کر بھی جو ایمان نہ لائے تو پھر اس کو اندھا ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہاں قیامت ‘ دعا اور عبادت کا ذکر کیا گیا ہے اور آخرت کا بیان کیا گیا ہے۔ اور پھر اللہ کی قدرتوں کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ انسان کو پیدا کرنا کائنات کو پیدا کرنے سے آسان ہے۔ اب اس کو ہم یوں سمجھ سکتے ہیں کہ انسانی جسم اور روح آج تک انسان کیلئے کافی پیچیدہ مسئلہ بنا ہوا ہے۔ جسمانی نظم و نسق کو سمجھنے کیلئے ڈاکٹر صاحبان سات سال کی انتھک محنت کے بعد بھی مکمل نہیں ہوتے پھر ہر جسمانی عضو کا علیحدہ علیحدہ علم حاصل کرنا پڑتا ہے۔ آنکھ، ناک، کان، دل، دماغ، ہڈیاں، گردے وغیرہ غرض انسانی جسم کی ساخت کو سمجھنے کیلئے کس قدر محنت توجہ وقت اور پیسہ درکار ہوتا ہے تب جا کر ڈاکٹر کو کچھ سوجھ بوجھ حاصل ہوتی ہے۔ پھر بھی میڈیکل سائنسز میں اپ ٹو ڈیٹ رہنے کیلئے مسلسل مطالعہ جاری رکھنا پڑتا ہے۔ کیونکہ ریسرچ کا عمل جاری رہتا ہے اور آئے دن نئی سے نئی معلومات حاصل ہوتی رہتی ہے۔ کائنات میں بھی انسان سر کھپاتا رہتا ہے۔ پھر اپنی ہی اختراعات کو بدلتا بھی رہتا ہے۔ مگر قرآن پاک میں انسان کے بارے میں کائنات کے بارے میں جو کچھ بتا دیا گیا ہے وہ ہرگز نہیں بدلا تو یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ سائنس قرآن کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے قران سائنسی مطابقت نہیں رکھتا اور اسی لیے موجودہ دور کے کئی سائنس دان اسلام کی طرف رجوع کرنے لگے ہیں۔ جیسا کہ مسٹر آرتھر اپنی کتاب "I believe" میں لکھتے ہیں : انسانی دماغ تخلیق کائنات جیسے عظیم سوالات کو حل کرنے کے لیئے ایک حقیر سا آلہ ہے ہمیں اس کی مجبوریوں کا اعتراف کرلینا چاہیے ‘ مگر پھر بھی یہ ہمہ وقت (ہر وقت) ادراک کرواتا رہتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز کس قدر منظم اور مربوط اور فطرت کی نت نئی ایجادات کیسی حیران کن ہیں ہر سمت میں ایک مفید مقصد کارفرما ہے خواہ یہ عامی ہوں یا سائنس دان ہمیں کائنات کیلئے ایک حاکم اعلیٰ کو ماننا پڑے گا ‘ جو نام چاہے اس کو دیدو اور جو شکل چاہے اس کی تجویز کردو مگر اس کو مانے بغیر مفر نہیں “۔ (از مطالعہ قرآن مصنف میجر جنرل غلام محمد ملک) اسی طرح قیامت سے انکار کرنے والوں کیلئے ہیرو شیما اور ناگاسا کی کی تباہی بہت بڑا ثبوت ہے۔ قیامت کی تصدیق کیلئے ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم کی تباہی کافی بڑی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ صور پھونکنے کے بعد پہاڑوں کو روئی کے گالوں کی طرح تم اڑتے ہوئے دیکھوگے کیا ان دھماکہ خیز مادوں نے پہاڑوں کو ریزہ ریزہ نہیں کردیا تھا ؟ کیا اب بھی کسی شک و شبہ کی گنجائش ہے ؟ ہرگز نہیں۔ پھر فرمایا کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا “۔ اور پھر لوگوں کو خبر دار کرنے کیلئے فرمایا : کہ جو لوگ تکبر کی وجہ سے میری عبادات سے منہ موڑتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے “۔ (سورۃ المومن آیت : 60) اس قدر وضاحت سے سب کچھ بتایا جا رہا ہے کہ اگر انسان تھوڑا سا غوروفکر کرے تو ایمان و کفر کا فرق اس کو صاف دکھائی دینے لگے۔ اسی لیے قرآن پاک میں غوروفکر کرنے کیلئے بڑی تاکید کی گئی ہے اللہ ہر بندے کو اس کی توفیق دے۔ (آمین) ہر بندے کو یاد رکھنا چاہیے کہ دعا عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ کیونکہ جب ہم اللہ کو واحد ‘ عظیم ‘ حکیم اور خالق مانتے ہیں تب ہی تو اس سے دعا کرتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ دعا عبادت کا مغز ہے۔ (مشکوٰۃ شریف) اللہ دعا کرنے والے مانگنے والے پر اپنی رحمتیں برساتا ہے اور خوش ہوتا ہے۔ اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکارو ‘ جو تجھے نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے نہ نقصان۔ ( سورة یونس آیت :106)
Top