Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 54
وَ مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ۠   ۧ
وَمَكَرُوْا : اور انہوں نے مکر کیا وَ : اور مَكَرَ : خفیہ تدبیر کی اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ خَيْرُ : بہتر الْمٰكِرِيْنَ : تدبیر کرنیوالے ہیں
اور انہوں نے بھی خفیہ تدبیر کی اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی، اور اللہ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے،134 ۔
134 ۔ (آیت) ” مکروا “ کا اسم فاعل یہود ہیں۔ یہود کے اکابر اور سرداروں نے مخالفت وایذاء کے بہت سے درجہ طے کرنے کے بعد بالآخر یہ طے کیا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ختم ہی کردینا چاہیے چناچہ پہلے اپنی مذہبی عدالت میں الحاد کا الزام لگا کر آپ کو واجب القتل قرار دیا۔ پھر رومی حاکموں کی ملکی عدالت میں لاکر ان پر بغاوت کا مقدمہ چلایا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے مخالفین کا یہ معرکہ ملک شام کے صوبہ فلسطین میں پیش آیا تھا۔ شام اس وقت رومی سلطنت کا ایک جزء تھا اور یہاں کے یہودی باشندوں کو اپنے معاملات میں نیم آزادی اور نیم خود مختاری حاصل تھی جیسے انگریزی حکومت کے ماتحت والیان ریاست کو حاصل رہتی ہے۔ شہنشاہ رومہ کی طرف ایک نائب السلطنت (وائسرائے) شام کا تاھ اور اس کے ماتحت ایک والی یا امیر فلسطین کا تھا۔ رومیوں کا مذہب شرک وبت پرستی کا تھا۔ یہود کو اتنا اختیار حاصل تھا کہ اپنے لوگوں کے مقدمات اپنی مذہبی عدالتوں میں لائیں لیکن سزاؤں کے نفاذ کے لئے انہیں پھر انہی مجرموں کو ملکی عدالتوں کے سامنے لانا پڑتا تھا۔ جرم الحاد میں فتوی قتل خود یہود کی مذہبی عدالت دے سکتی تھی لیکن واقعۃ سزائے موت کا نفاذ صرف رومی ملکی عدالت کے قبضہ میں تھا۔ اور سزائے موت رومی حکومت میں سولی کے ذریعہ دی جاتی تھی۔ یہود کی اسی گہری اسکیم کی جانب اشارہ قرآن مجید کے لفظ مکروا میں ہے (آیت) ” ومکر اللہ “ یعنی اللہ نے مخالفین ومعاندین کی ساری تدبیریں، ساری سازشیں الٹ دیں اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کو سولی کی موت سے بچا لیا۔ عربی زبان میں ایک قاعدہ مشاکلت کا ہے۔ یعنی کسی فعل کی سزا یا جواب کو بھی بجنسہ اسی فعل کے لفظ سے ادا کیا جاتا ہے اور اس طرز ادا میں مطلق کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا۔ مثلا کسی نے زید پر حملہ کیا، اور زید نے اس کا جواب دیا، تو عربی محاورہ میں یوں کہیں گے کہ اس نے زید پر حملہ کیا اور زید نے اس پر حملہ کیا حالانکہ زید کا ” حملہ “ مطلق نہ ہوگا۔ بلکہ صرف سزائے حملہ ہوگی یا زیادہ سے زیادہ ” جوابی حملہ “ یا کوئی مجھے ٹھگ لے اور میں اس سے انتقام لوں تو عربی میں پیرایہ ادا یہ ہوگا کہ اس نے مجھے ٹھگا، اور میں نے بھی اسے ٹھگ لیا۔ حالانکہ ظاہر ہے کہ میری طرف ٹھگنے کی سزا ہی ملے گی۔ اس اصل کو ذہن نشین کرلینے کے بعد قرآن مجید کی اس قسم کی آیتوں سے کہ :۔ ( 1) (آیت) ” مکروا ومکر اللہ “۔ انہوں نے مکر کیا اور اللہ نے بھی ” مکر “ کیا۔ (2) (آیت) ’ ’ انھم یکیدون کیدا واکیدکیدا “ وہ ” کید “ سے کام لیتے ہیں اور میں بھی ” کید “ سے کام لیتا ہوں۔ (3) (آیت) ” جزؤا سیءۃ سیءۃ مثلھا “۔” برائی “ کی سزاویسی ہی ایک ” برائی “ ہے۔ (4) (آیت) ” قالوا انما نحن مستھزء ون اللہ یستھزی بھم “۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم تو محض ” ہنسی “ کرتے ہیں۔ اللہ ان سے ہنسی کرتا ہے۔ (5) (آیت) ” فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ “۔ جو تم پر زیادتی کرتا ہے تم اس پر زیادتی کرو، جو اشکال محض ترجمہ کی بنا پر پیدا ہوتا ہے وہ از خود ساقط ہوجاتا ہے۔ ان تمام مثالوں میں جوابی اور سزائی ’ مکر “ نہ مکر ہے نہ ” کید “ کید ہے نہ ”‘ سیۂ “ سیۂ ہے، نہ استہزاء، استہزاء نہ زیادتی زیادتی ہے۔ بلکہ ہر موقع پر مراد صرف سزائے مکر، سزائے کید، سزائے سیۂ ، سزائے استہزا، اور سزائے اعتداء ہے۔ تو اس جوابی وتعزیری مکر اللہ پر کوئی سوال ہی نہیں عائد ہوتا۔ لیکن اس کے علاوہ عربی میں مکر میں کوئی ذم کا پہلولازمی طور پر ہے بھی نہیں۔ مکر محمود بھی ہوسکتا ہے اور مکر مذموم بھی۔ اصل معنی صرف خفیہ تدبیر۔ گہری تدبیر یا انگریزی میں Plan کے ہیں۔ المکر الخدیعۃ والاحتیال وقال اللیث احتیال فی خفیۃ (تاج) وفی البصائز المکر ضربان محمودوھو ماتجری بہ امر جمیل و مذموم وھو ماتجری بہ فعل ذمیم (تاج) المکر صرف الغیر عما یقصدہ بحیلۃ وذلک ضربان مکر محمود و مذموم (راغب) پس جس کسی ہندی نے اردو کے مکروفریب پر قیاس کرکے مکر اللہ پر حرف گیری کی ہے، اس نے خود اپنی جہالت کا پردہ فاش کیا ہے (آیت) ” واللہ خیر المکرین “۔ اور اللہ کی تدبیریں سب سے اونچی اور سب پر غالب آنے والی ہیں اس کا مقابلہ جس طرح کوئی جسمانی قوت اور مادی زور سے نہیں کرسکتا اسی طرح کسی کی عقل، تدبیر اس کے سامنے پیش نہیں پاسکتی۔ چناچہ یہاں بھی اس کی حکمت وتدبیرکار گررہی۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) زندہ و سلامت رہے۔ اور صلیب دیتے وقت یہود عوام نے تو ہجوم واژدحام کے گڑ پر اور وقت کی تنگی سے اور سولی گھر کے رومی سپاہیوں نے شناخت نہ ہونے کی بنا پر یوں کہا کہ حضرت (علیہ السلام) ہی کے قوم کے کسی ہم شکل، ہم عمر، ہم وضع کو سولی پر چڑھا دیا۔ کلیسا کا آج عام عقیدہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے مصلوب ہونے، صلیب پر وفات پانے اور پھر تیسرے دن جی اٹھنے کا ہے۔ لیکن مسیحیوں کے بعض قدیم فرقہ Bosiledious باسلید یہ وغیرہ) ٹھیک اسی اسلامی عقیدہ کے ہوئے ہیں۔
Top