Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 36
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ اَنَّ لَهُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَهٗ مَعَهٗ لِیَفْتَدُوْا بِهٖ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَا تُقُبِّلَ مِنْهُمْ١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) لَوْ : اگر اَنَّ : یہ کہ لَهُمْ : ان کے لیے مَّا : جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں جَمِيْعًا : سب کا سب وَّمِثْلَهٗ : اور اتنا مَعَهٗ : اس کے ساتھ لِيَفْتَدُوْا : کہ فدیہ (بدلہ میں) دیں بِهٖ : اس کے ساتھ مِنْ : سے عَذَابِ : عذاب يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : قیامت کا دن مَا : نہ تُقُبِّلَ : قبول کیا جائے گا مِنْهُمْ : ان سے وَلَهُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
بیشک جو لوگ کافر ہیں اگر ان کے پاس ساری دنیا کی چیزیں ہوں، اور اتنی ہی ان کے پاس اور بھی ہوں، تاکہ وہ انہیں معاوضہ میں دے کر قیامت کے دن عذاب سے چھوٹ جائیں، تو وہ ان سے (ہرگز) قبول نہ کی جائے گی، اور ان کے لیے عذاب درد ناک (ہی) ہے،133 ۔
133 ۔ توحید و رسالت کی طرف معاد وآخرت کے مسئلہ میں اہل جاہلیت سیکڑوں غلطیوں میں مبتلا رہتے ہیں، انہی میں سے ایک بڑی اہم غلطی یہ ہے کہ وہاں کے معاملات کو بھی دنیا پر قیاس کرکے یہ سمجھا جاتا ہے، کہ جس طرح یہاں کی عدالتوں، دفتروں، محکموں میں لین دین سے کام چلا لیا جاتا ہے، ایسے ہی نذرانوں، رشوتوں کی گرم بازاری وہاں بھی ہوگی، اور ہر خطا ولغزش پر کسی نہ کسی مالی معاوضہ سے قلم پھیر دیا جاسکے گا۔ قرآن مجید کو اس عالمگیر غلطی کی بار بار تردید کرنی پڑی، اور بتانا پڑا ہے، کہ کفر کا فدیہ یا کفارہ آخرت میں کسی مال و دولت سے بھی ادا نہیں ہوسکتا۔ (آیت) ” ان لھم “۔ ان لکل واحد منھم “۔ کے معنی میں ہے، یعنی ان میں سے ایک ایک کے پاس بھی اگر اتنا مال ہوتا۔ (آیت) ” معہ “۔ میں ضمیر واحد غائب اسی (آیت) ” ما فی الارض جمیعا “۔ کی طرف ہے۔ (آیت) ” لو “۔ یہ حرف اکثر جس عبارت پر آتا ہے، اس سے مراد ایک ان ہونی بات بہ طور فرض محال کے ہوتی ہے۔ چناچہ یہاں بھی یہی مراد ہے کہ اس فرض محال پر بھی کوئی صورت عذاب سے نجات کی نہ ہوسکے گی۔ (آیت) ” مافی الارض جمیعا “۔ اس کے تحت میں وہ سب کچھ آگیا، جو ذہن انسانی میں سماسکتا ہے۔
Top