Tafseer-e-Mazhari - An-Nahl : 70
وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ یَتَوَفّٰىكُمْ١ۙ۫ وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰۤى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَیْ لَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ۠   ۧ
وَاللّٰهُ : اور اللہ خَلَقَكُمْ : پیدا کیا تمہیں ثُمَّ : پھر يَتَوَفّٰىكُمْ : وہ موت دیتا ہے تمہیں وَمِنْكُمْ : اور تم میں سے بعض مَّنْ : جو يُّرَدُّ اِلٰٓى : لوٹایا (پہنچایا) جاتا ہے طرف اَرْذَلِ الْعُمُرِ : ناکارہ۔ ناقص عمر لِكَيْ : تاکہ لَا يَعْلَمَ : وہ بےعلم ہوجائے بَعْدَ : بعد عِلْمٍ : علم شَيْئًا : کچھ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا قَدِيْرٌ : قدرت والا
اور خدا ہی نے تم کو پیدا کیا۔ پھر وہی تم کو موت دیتا ہے اور تم میں بعض ایسے ہوتے ہیں کہ نہایت خراب عمر کو پہنچ جاتے ہیں اور (بہت کچھ) جاننے کے بعد ہر چیز سے بےعلم ہوجاتے ہیں۔ بےشک خدا (سب کچھ) جاننے والا (اور) قدرت والا ہے
وا اللہ خلقکم ثم یتوفکم ومکن من یرد الی ارذل العمر لکی لا یعلم بعد علم شیئا ان اللہ علیم قدیر اور اللہ ہی نے تم کو پیدا کیا اور وہی تمہاری جانیں قبض کرتا ہے (بچپن میں ‘ یا جوانی میں ‘ یا متوسط عمر میں ‘ یا بڑھاپے میں) اور بعض تم میں سے وہ ہیں جو ناکارہ عمر تک پہنچائے جاتے ہیں جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ایک چیز سے باخبر ہونے کے بعد پھر بیخبر ہوجاتا ہے۔ بیشک اللہ بڑے علم اور بڑی قدرت والا ہے۔ اَرْذَلِ الْعُمُرِ بدترین عمر ‘ ناکارہ عمر ‘ انتہائی بڑھاپا۔ قتادہ نے کہا : ارذل عمر نوے سال ہے۔ حضرت علی نے فرمایا : پچھتر برس ارذل عمر ہے۔ بعض نے اسّی برس کی عمر کو ارذل عمر کہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اپنی دعا میں فرماتے تھے : اے اللہ ! میں بڑی عمر سے تیری پناہ لیتا ہوں۔ دوسری روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ اے اللہ ! میں تیری پناہ کا طالب ہوں کہ مجھے ارذل عمر تک پہنچایا جائے۔ صحیحین وغیرہ میں بھی ایسی ہی روایت آئی ہے۔ باخبر ہونے کے بعد بیخبر ہوجانے کا یہ مطلب ہے کہ تمام معلومات کو بھول جائے اور بچوں کی طرح نادان اور ضعیف الفہم ہوجائے۔ عکرمہ نے کہا : جو قرآن (ہمیشہ) پڑھتا ہے ‘ وہ اس حالت پر نہیں پہنچتا۔ اِنَّ اللّہَ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ یعنی اللہ لوگوں کی عمروں کی مقداروں سے خوب واقف ہے اور ہر چیز پر قادر ہے۔ پیر فرتوت کو کبھی نہیں چھوڑتا اور جوان قوی کی جان قبض کرلیتا ہے۔ اس آیت سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ لوگوں کے احوال کا اختلاف و تفاوت اللہ حکیم وعلیم کے اندازے کے مطابق اور اس کی مشیّت کے موافق ہے ‘ طبعی اور خودبخود نہیں ہے۔ اگر طبعی اقتضاء ہوتا تو اس حد تک نہ ہوتا (کہ عالم صغیر ہونے کے بعد آدمی قطعاً بیخبر ہوجائے کہ باوجود بیماری نہ ہونے کے محض ترقی عمر کی وجہ سے بچہ کی طرح ہوجائے اور علم و عمل سے بیخبر ہوجائے) ۔
Top