Mualim-ul-Irfan - An-Nahl : 70
وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ یَتَوَفّٰىكُمْ١ۙ۫ وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰۤى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَیْ لَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ۠   ۧ
وَاللّٰهُ : اور اللہ خَلَقَكُمْ : پیدا کیا تمہیں ثُمَّ : پھر يَتَوَفّٰىكُمْ : وہ موت دیتا ہے تمہیں وَمِنْكُمْ : اور تم میں سے بعض مَّنْ : جو يُّرَدُّ اِلٰٓى : لوٹایا (پہنچایا) جاتا ہے طرف اَرْذَلِ الْعُمُرِ : ناکارہ۔ ناقص عمر لِكَيْ : تاکہ لَا يَعْلَمَ : وہ بےعلم ہوجائے بَعْدَ : بعد عِلْمٍ : علم شَيْئًا : کچھ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا قَدِيْرٌ : قدرت والا
اور اللہ وہ ہے جس نے پیدا کیا ہے تم کو ، پھر وہ وفات دیتا ہے تم کو ، اور تم میں سے بعض وہ ہیں کہ جن کو لوٹایا جاتا ہے رذیل عمر کی طرف تاکہ نہ جانے وہ علم کے بعد کبچھ بھی ، بیشک اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا ، اور قدرت تامہ کا مالک ہے ۔
(ربط آیات) اللہ تعالیٰ نے پہلے شرک اور مشرکین کا رد فرمایا ، اس کے بعد اپنی قدرت کی چند مثالیں بیان کیں جو اس کی وحدانیت کی دلیل بنتی ہیں ، منجملہ ان کے آسان کی طرف سے پانی کا نزول اور اس کے ذریعے مختلف چیزوں کی پیدائش کا ذکر ہے پھر مویشیوں سے دودھ اور پھلوں سے پاکیزہ روزی کا ذکر ہوا شہد کی مکھیوں کے ذریعے نہایت مفید اور مرغوب شہد کا بیان ہوا جس میں اللہ نے بہت سی بیماریوں کے لیے شفا رکھی ہے ، فرمایا یہ اس کی قدرت کے بیرونی دلائل ہیں ، اور یہ کن لوگوں کے لیے مفید ہیں ؟ فرمایا (آیت) ” لقوم یتفکرون “۔ غور وفکر کرنے والوں کے لیے (آیت) ” لقوم یعقلون “ عقل سے کام لینے والوں کے لیے (آیت) ” لقوم یؤمنون “ یقین رکھنے والوں کے لیے ، (آیت) ” اور لقوم یسمعون “ کان لگا کر سننے والوں کے لیے ، ۔ اب آج کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندرونی حالات کو موضوع سخن بنایا ہے ، اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر انسان اپنی زندگی کے مختلف مراحل پر ہی غور کرے تو اسے اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیت سمجھ میں آسکتی ہے سورة الذریت میں موجود ہے (آیت) ” وفی انفسکم افلا تبصرون “۔ خود تمہارے نفسوں کے اندر بہت سی نشانیاں ہیں ، کیا تم دیکھتے نہیں ؟ (زندگی اور موت) اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے تخلیق انسانی کا ذکر کیا ہے (آیت) ” واللہ خلقکم “۔ اللہ کی ذات وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا یعنی انسان کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ اللہ نے اسے تخلیق کی نعمت عطا کی ہے اور وہ اللہ کی مخلوق ہے ، پھر فرمایا کہ اللہ نے انسان کو پیدا فرما کر یونہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ (آیت) ” قد جعل اللہ لکل شیء قدرا “۔ (الطلاق) اس نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے کائنات کے لیے بحیثیت مجموعی فرمایا (آیت) ” ما خلقنا السموت والارض وما بینھما الا بالحق واجل مسمی “۔ (الاحقاف) آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز کے لیے وقت مقرر ہے ، جب وہ وقت آجائے گا ، تو کائنات کا پورا نظام ختم ہوجائے گا ، اسی طرح قوموں کے لیے بھی اللہ نے مختلف اوقات مقرر فرمائے ہیں ایک وقت میں انہیں عروج حاصل ہوتا ہے تو دوسرے وقت میں ان پر زوال آجاتا ہے ، اسی طرح ہر متنفس کے لیے وقت مقرر ہے ، اس کی زندگی ایک خاص مدت تک کارآمد رہتی ہے اور پھر انحطاط کا عمل شروع ہوجاتا ہے ، چناچہ فرمایا کہ اللہ کی ذات وہ ہے جس نے تمہیں پیدا فرمایا ہے (آیت) ” ثم یتوفکم “۔ پھر وہ تم پر موت طاری کردیتا ہے ، جب تک اس کو منظور ہوتا ہے ، انسان کو زندہ رکھتا ہے اسے زندگی کے مختلف مراحل سے گزارتا ہے اور پھر موت سے ہمکنار کردیتا ہے ۔ (زندگی کا عروج وزوال) انسانی زندگی میں کئی عروج وزوال آتے ہیں انسان پیدا ہوتا ہے ، بچپن گزارکر جوانی کی عمر کو پہنچتا ہے ، پھر اس پر بڑھاپا طاری ہوجاتا ہے ، ان میں سے بعض کو زیادہ موقع نہیں ملتا اور وہ ابتدائی عمر میں فوت ہوجاتے ہیں بعض جوانی میں اور بعض بڑھاپے کی عمر میں موت سے ہمکنار ہونے میں اور پھر بعض اس سے بھی آگے طبعی مدت پوری کرکے فوت ہوتے ہیں ، اطبا کہتے ہیں کہ جسمانی ساخت کے اعتبار سے انسان کی طبعی عمر ایک سو بیس سال ہے ، اللہ نے انسان کے جسم کی مشینری کو اتنے عرصہ کے لیے کارآمد بنایا ہے بشرطیکہ اس کے قوی میں کوئی خرابی واقع نہ ہو ، حضرت حکیم بن حزام ؓ کو اللہ تعالیٰ نے اتنی ہی عمر عطا فرمائی ، پہلے زمانے میں لوگوں کی اوسط عمر زیادہ تھی مگر اب شاذو نادر ہی کوئی لمبی عمر پاتا ہے حضور ﷺ کا فرمان (1) مبارک ہے ” اعمار امتی مابین ستین الی سبعین وقل من یجوز ذلک “۔ یعنی میری امت کے لوگوں کی عمریں عموما ساٹھ اور ستر سال کے درمیان ہوں گی اور بہت کم ہوں گے جو اس سے آگے جائیں گے ، علماء اور محققین کہتے ہیں کہ ابتداء سے لے کر پنتیس (35) برس تک کی عمر کا ایک مرحلہ ہوتا ہے اس عرصہ میں انسان کے قوائے ظاہرہ اور باطنہ مکمل ہوتے ہیں اور ان میں کوئی منفی تغیر واقع نہیں ہوتا ، پھر چالیس سال کی عمر سے ساٹھ سال کی عمر تک دوسرا دور ہوتا ہے ، یہ درمیانہ عرصہ حیات ہے جو کہ انسان کا قیمتی سرمایہ ہے ، بچپن میں قوی نامکمل ہوتے ہیں اور انسان میں ناپختگی ہوتی ہے ، اسی لیے بچہ مکلف بھی نہیں ہوتا ، البتہ یہ درمیانی عرصہ ہی بہترین عرصہ ہوتا ہے جس میں انسان دین اور دنیا کا کام صحیح طور پر انجام دے سکتا ہے ، اگر اس عرصہ زندگی کو انسان اچھے کاموں میں استعمال کرے تو وہ ترقی کرتا ہے اور بھر پور زندگی گزارتا ہے ، انسان کی ابتدائی زندگی کو بھی اللہ نے ضعف پر محمول کیا ہے جیسے فرمایا (آیت) ” اللہ الذی خلقکم من ضعف ثم جعل من بعد ضعف قوۃ ثم جعل من بعد قوۃ ضعفا وشیبۃ “۔ (الروم) اللہ کی ذات وہی ہے جس نے انسان کو کمزور حالت میں پیدا کیا پھر اس کے بعد قوت عطا کی ، پھر ضعف اور بڑھاپے کی حالت طاری کردی ، اسی لیے حضور ﷺ نے بڑھاپے کی عمر سے پناہ مانگی ہے جس کے الفاظ اس طرح آتے ہیں ۔ ” اللھم انی اعوذ بک من البخل والکسل ومن سوء العمر ومن ارذل العمر ومن فتنۃ المسیح الدجال ومن فتنۃ المحیا والممات ومن عذاب القبر “۔ اے اللہ ! میں تیری ذات کے ساتھ پناہ پکڑتا ہوں بخل او سستی سے ، بری عمر اور رذیل عمر سے مسیح دجال کے فتنہ سے ، زندگی اور موت کے فتنہ سے اور قبر کے عذاب سے ۔ (ارذل العمر) فرمایا انسانی زندگی کا دوسرا اور بہترین دور چالیس سے ساٹھ تک کا ہے اور اس کے بعد تیسرا دور بڑھاپے کا ہوتا ہے ، جو کہ پچھتر سال کی عمر تک چلتا ہے پھر جو کوئی اس عمر کو پہنچ جائے اس کا ارذل العمر شروع ہوجاتا ہے ، بعض فرماتے ہیں کہ یہ دوراسی (80) سال کی عمر کے بعد شروع ہوتا ہے ، اسی حصہ زندگی کے متعلق اللہ نے اس آیت میں فرمایا ہے (آیت) ” ومنکم من یرد الی ارذل العمر “۔ اور تم میں سے بعض وہ ہیں جن کو رذیل عمر کی طرف لوٹایا جاتا ہے ، اس عمر کو پہنچ کر انسان کے قوی مضمحل ہوجاتے ہیں اور وہ کوئی کام ٹھیک طریقے سے نہیں کرسکتا ، اس کے اعضاء میں ضعف پیدا ہوجاتا ہے کبھی معدہ خراب اور کبھی پیشاب کی تکلیف ، کبھی آنتوں میں تکلیف اور کبھی دانتوں میں خرابی ، سماعت اور بینائی تو اکثر جواب دے دیتی ہے اور انسان بیکار محض ہو کر رہ جاتا ہے ، اسی لیے حضور ﷺ نے ارذل العمر سے خدا کی پناہ مانگی ہے اصل کام کاج اور عبادت الہی کے لیے درمیانہ عرصہ حیات ہی بہترین ہے ، حضور ﷺ نے سات آدمیوں کے متعلق بشارت سنائی کہ ان کو عرش کے سایہ میں جگہ ملے گی ان میں وہ نوجوان بھی شامل ہے جس نے جوانی کی عمر عبادت میں گزاری ، (پیری شعراء کی نظر میں) پیرانی سالی کے اس دور کو ہر آدمی محسوس کرتا ہے ، تاہم جب ایک شاعر اس مرحلے سے گزرتا ہے تو اس کے احساسات اشعار کی صورت میں اس کی زبان پر آجاتے ہیں جگر مراد آبادی برصغیر کا معروف شاعر ہے جسے فوت ہوئے ابھی بیس سال کا عرصہ ہوا ہے اس نے اپنی شعر میں کہا ہے ۔ زندی وخرا باقی درعہد شباب اولی ۔ یعنی خواہ رندی ہو یا خراباقی یہ جوانی کی عمر میں ہی ہو سکتی ہے مطلب یہ کہ بڑھاپے میں انسان کسی کام کا نہیں رہتا ۔ قدیم شعرا میں مومن خان مومن بھی صف اول کا شاعر تھا سنی مسلمان ، سید احمد شہید بریلوی (رح) کا مرید اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (رح) کا شاگرد تھا ، وہ کہتا ہے ۔ عہد شباب ہے زندگانی کا مزا پیری میں کہاں ہے وہ نوجوانی کا مزا یہ بھی کئی دن میں فسانہ ہوگا باقی ہے جو باتوں میں کہانی کا مزا جگر مراد آبادی کا یہ شعر بھی ملاحظہ کریں ۔ رخصت ہوئی شباب کے ہمراہ زندگی کہنے کی بات ہے کہ جئے جارہا ہوں صوفی شعراء میں عراقی بڑے مشہور ہیں ، انہوں نے بھی اس دور کا بڑے لطیف انداز میں ذکر کیا ہے ۔ افسوس کہ ایام جوانی بگذشت سرمایہ عیش جاودانی بگذشت خضتم بہ کنار جوئے چنداں کزجوئے من آب زندگانی بگذشت : افسوس جوانی کا زمانہ گذر گیا ، حقیقت میں صحیح زمانہ عیش وہی تھا میں ندی کے کنارے اتنا سویا کہ میری اپنی زندگی کی ندی کا پانی بھی ختم ہوگیا ۔ عربی شعراء میں سے ابوکبیر ہذلی اپنی بیٹی کو خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے ۔ ازھیر ھل من شیبۃ من معدل ام لا سبیل الی الشباب الاول : اے بیٹی زھیر ! کیا بڑھاپے سے بدلنے کی بھی کوئی صورت ہوسکتی ہے ؟ کیا اس جوانی کے زمانے کی طرف پلٹنے والی کوئی بات ہو سکتی ہے ؟ ام لا سبیل الی الشباب وذکرہ اشھی الی من الرحیق السلسل : یعنی مجھے تو کوئی صورت نظر نہیں آتی ، میرے نزدیک تو اس کا ذکر بھی شراب مصفا سے زیادہ پیارا ہے ۔ سمت تکالیف الحیاۃ ومن یعش ثمانین حولا لا ابالک یسام میں اسی زندگی سے دلگیر ہوگیا ہوں ، تیرا باپ نہ رہے جو آدمی اسی سال کی عمر تک پہنچتا ہے ، وہ یقینا زندگی سے دلگیر ہوتا ہے ۔ رایت المنایا خبط عشوآء من لصب لمتہ ومن تخطی یعمر فیھرم : میں نے موتوں کو ایسا دیکھا ہے جیسے اندھی اونٹنی ٹامک ٹوٹیاں مارتی ہے جس کو مل گئی اس کو فنا کردیا ، اور جس سے خطا کرگئی ، اسکو عمر دے دی جاتی ہے وہ ہرم میں مبتلا ہوجاتا ہے اور ہرم ضعف اور انحطاط کی عمر کو کہا جاتا ہے ۔ کسی نے یہ بھی کہا ہے ۔ ان الثمانین وبلغ تھا قد احوجت سمعی الی ترجمان : تحقیق خدا تجھے اسی سال کی عمر تک پہنچائے اس نے مجھے تو ترجمان کی طرف محتاج کردیا ہے یعنی میرے قومی اس قدر مضمحل ہوچکے ہیں کہ اب میں ترجمان کے بغیر کسی سے بات بھی نہیں کرسکتا ، نہ خود کسی کو بات سن سکتا ہوں اور نہ دوسرے کو اپنی بات سنا سکتا ہوں ۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ بچ اس سال کے بعد انسان کی زندگی ایسی ہوتی ہے گویا کہ وہ غلط راستے (WRONG SIDS رانگ سائڈ) پر جا رہا ہو ، وہ ہر وقت حادثات کے خطرہ سے دوچار رہتا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے ، گہے از دست وگ ہے از دل گہے زپامانم بسرعت می روی اے عمر می ترسم کہ اومانم : مطلب یہ کہ کبھی ہاتھ میں تکلیف ہوگئی ، کبھی دل اور کبھی پاؤں میں خرابی پیدا ہوگئی عمر تیزی سے گزر رہی ہے اور پھر ایسا ہوگا کہ ہم اس کا ساتھ نہیں دے سکیں گے اور وہ نکل جائے گی ، ” البیان والتبین “ والے نے بشار ابن برد کا شعر نقل کیا ہے ۔ والشیب شین لمن ارسی بساحتہ للہ دراسواد المۃ الخالی : بڑھاپا تو ایک عیب ہے جس کے صحن میں اتر جائے حقیقت میں زندگی کا بہترین دور وہی ہوتا ہے ، جب بال کالے ہوتے ہیں ، سعدی صاحب نے کہا ہے ، بلکہ حضور ﷺ کا فرمان بھی ہے کہ شباب کو بچپن سے غنیمت سمجھو کہ یہ جلدی ختم ہوجائے گا اور جو کچھ کرنا ہے شباب میں ہی کرلو ، اس کو غنیمت سمجھو کہ یہ دور بھی ختم ہوجائے گا ، خیرے کن اے فلاں وغنیمت شمار عمر زاں پیشتر کہ بانگ برآید فلاں نہ ماند : نیکی کا کام کرلو اور زندگی کے ان لمحات کو غنیمت سمجھو ، ایک دن آواز آئے گی کہ فلاں آدمی اس دنیا میں نہیں رہا ۔ اسی طرح عمران ابن حطان کا شعر ہے ۔ فاعمل فانک منعی بواحدۃ حسب اللبیب بھذا الشیب من ناعی : جو کچھ عمل کرنا ہے کرلو کیونکہ ایک دفعہ آواز اٹھے گی کہ فلاں آدمی مر گیا ، اور اگر تم کسی ڈرانے والے کو تلاش کر رہے ہو ، تو یہ بالوں کی سفیدی کافی ڈرانے والی ہے یہی موت کی خبر دیتی ہے ، اسی لیے حضور ﷺ کا فرمان بھی ہے کہ قیامت کے دن چار چیزوں کے متعلق پوچھا جائے گا ، اور جب تک کوئی ان کا جواب نہیں دے گا ، اسے قدم نہیں اٹھانے دیا جائے گا ، وہ چیزیں ہیں انسان کا عالم شباب ، اس کی عمر مال اور علم ، (حافظہ کی کمزوری) بہرحال زندگی کا درمیانہ عرصہ ہی بہترین عرصہ ہے جس میں انسان کمال حاصل کرسکتا ہے ، علم وہنر سیکھ سکتا ہے ، اور عبادت و ریاضت کرسکتا ہے ملکی دفاع کے لیے اسی عمر کی ضرورت ہوتی ہے ، ہر محنت طلب کام اسی عمر کے حصہ میں کیا جاسکتا ہے ، تو اللہ نے فرمایا کہ ذرا غور کرو کہ تمہیں پیدا کیا پھر موت طاری ہوتی ہے ، اور درمیان میں ارذل العمر کا دور بھی آتا ہے جبکہ انسان کی حالت یہ ہوجاتی ہے ۔ (آیت) ” لکی لا یعلم بعد علم شیئا “۔ کہ علم ہونے کے باوجود کچھ نہیں جانتا ، حافظ خراب ہوجاتا ہے ، شباب کے عالم میں جو کچھ یاد تھا ، وہ بھول چکا ہے اور حالت یہ ہے کہ عالم ہونے کے باوجود بےعلم ہوگیا ہے ، شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں کہ اس حصہ آیت سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ اس امت میں کامل لوگ پیدا ہونے کے بعد پھر ناقص لوگ پیدا ہونے لگیں گے واللہ اعلم ، بظاہر یہی حال نظر آتا ہے قرون اولی کے لوگوں کے حالات پڑھئے اور پھر اس زمانے کے ساتھ مقابلہ کیجئے ۔ انفرادیت اور اجتماعیت ، اخلاقیات اور عبادات ہر لحاظ سے روبہ تنزل ہیں البتہ شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ جو شخص اللہ کی کتاب کے ساتھ تعلق رکھے گا ، اس کی درس و تدریس میں مصروف رہے گا ، اللہ تعالیٰ اس نسیان کے مذکورہ عارضہ سے محفوظ رکھے گا ، قرآن پاک کی برکت سے اس کی یاداشت قائم رہے گی ، فرمایا (آیت) ” ان اللہ علیم قدیر “۔ بیشک خدا تعالیٰ کی ذات سب کچھ جاننے والی اور قدرت تامہ کی مالک ہے تمام تغیرات اور تصرفات اسی کے اختیار اور قدرت میں ہیں ۔
Top