Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 127
وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ یَتَوَفّٰىكُمْ١ۙ۫ وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰۤى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَیْ لَا یَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَیْئًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ۠   ۧ
وَاللّٰهُ : اور اللہ خَلَقَكُمْ : پیدا کیا تمہیں ثُمَّ : پھر يَتَوَفّٰىكُمْ : وہ موت دیتا ہے تمہیں وَمِنْكُمْ : اور تم میں سے بعض مَّنْ : جو يُّرَدُّ اِلٰٓى : لوٹایا (پہنچایا) جاتا ہے طرف اَرْذَلِ الْعُمُرِ : ناکارہ۔ ناقص عمر لِكَيْ : تاکہ لَا يَعْلَمَ : وہ بےعلم ہوجائے بَعْدَ : بعد عِلْمٍ : علم شَيْئًا : کچھ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا قَدِيْرٌ : قدرت والا
نیز اس لئے تاکہ اس مدد سے منکرین حق کے ایک گروہ کو اللہ تعالیٰ ہلاک کر دے یا ان کو اس قدر ذلیل و مغلوب کر دے کہ وہ ناکام ہو کر واپس لوٹ جائیں۔2
2 اور اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے یہ امداد محض اس لئے فرمائی کہ تم کو فتح کی بشارت اور خوشی حاصل ہو اور تاکہ تمہارے قلوب کو اضطراب اور پریشانی سے اطمینان حاصل ہو اور تمہارے دل اس امداد سے مطمئن ہوجائیں ورنہ نصرت و مدد تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی جانب سے اور اسی کے پاس سے ہوتی ہے جو کمال قوت کا بڑا مالک اور بڑا زبردست اور کمال حکمت کا مالک ہے عزیر کا تقاضا یہ ہے کہ بغیر کسی سبب کے غلبہ حاصل ہوجائے مگر حکمت اور اس کے حکیم ہونے کا مقتضا یہ ہے کہ جب چاہے اسباب سے غلبہ عطا کرے اور اس فتح اور غلبہ کی حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ منکرین حق کے ایک گروہ کو ہلاک کر دے یا ان میں سے بعض کو اس قدر ذلیل و خوار کر دے کہ وہ ناکام و نامراد ہو کر واپس لوٹ جائیں۔ لیقطع طرفا و ما النصرا الامن عند اللہ میں جو فتح و نصرت ہے اس کی علت ہے یا نصرکم اللہ کی علت ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ بھی وما جعلہ اللہ کی علت ہو جیسا کہ ہمارے ترجمہ اور تیسیر کے فرق سے سمجھ میں آسکتا ہے۔ کبت کے معنی رسوا کرنا توڑ دینا کسی کو اٹھا کر پھینک دینا اور پچھاڑ دینا اور یہ جو فرمایا کہ ایک گروہ کو بالکل ہلاک کردیں یا رسوا اور ذلیل کردیں اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں میں سے ایک بات ہوجائے یا دونوں باتیں ہوجائیں چناچہ یہاں دونوں ہوئیں کہ ستر مارے بھی گئے اور ستر قید بھی ہوئے اور باقی خائب و خاکسر ہو کر بھاگ گئے۔ اس امداد بالم کہ کی دو حکمتیں بیان فرمائیں ایک بشارت فتح دوسرے اطمینان قلوب یہی دو باتیں یہاں تسلی دینے کے لئے مطلوب تھیں کہ نفع بھی حاصل ہو اور مجاہد ضرر سے بھی محفوظ رہیں اور یہ جو فرمایا کہ مدد تو اللہ ہی کے پاس سے ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسباب پر فقط بھروسہ نہیں کرنا چاہئے وہ چاہیں تو اپنی زبردست طاقت و بلا کسی سبب کے کامیاب فرما دیں کیونکہ کامیابی اور فتح تو اصل میں انہی کے قبضے میں سے اور وہ اسباب کے محتاج نہیں لیکن وہ حکیم ہیں س لئے نظام عالم کو اسی حکمت کے ماتحت قائم کر رکھا ہے اور بات بھی یہ ہے کہ اس عالم تکوینی کے بھیدوں کا کون احاطہ کرسکتا ہے پوری قوت و طاقت کے ہوتے ہوئے شکست اور باوجود بےسروسامانی کے فتح ملائکہ کی تشریف آوری کو اطمینان قلوب کا موجب فرمایا اس کی تفصیل انشاء اللہ سورة انفال میں آجائے گی۔ چونکہ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں ایک مناسبت تھی اس لئے بیچ میں بدر کا ذکر فرمایا اب آگے پھر غزوۂ احد کا ذکر فرماتے ہیں۔ (تسہیل)
Top