Tafseer-e-Mazhari - Al-Anbiyaa : 17
لَوْ اَرَدْنَاۤ اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّاۤ١ۖۗ اِنْ كُنَّا فٰعِلِیْنَ
لَوْ اَرَدْنَآ : اگر ہم چاہتے اَنْ : کہ نَّتَّخِذَ : ہم بنائیں لَهْوًا : کوئی کھلونا لَّاتَّخَذْنٰهُ : تو ہم اس کو بنا لیتے مِنْ لَّدُنَّآ : اپنے پاس سے اِنْ كُنَّا : اگر ہم ہوتے فٰعِلِيْنَ : کرنے والے
اگر ہم چاہتے کہ کھیل (کی چیزیں یعنی زن وفرزند) بنائیں تو اگر ہم کو کرنا ہوتا تو ہم اپنے پاس سے بنالیتے
لو اردنا ان نتخذ لہوا لا تخذنہ من لدنا ان کنا فعلین۔ اگر ہم کو مشغلہ ہی بنانا ہوتا تو ہم خالص اپنے ہی پاس کی چیز کو مشغلہ بناتے اگر ہم کو یہ کرنا ہوتا۔ عطاء کی روایت میں آیا ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا لہو سے مراد عورت ہے۔ حسن اور قتادہ کا بھی یہی قول ہے جماع کو لغت میں لہو کہتے ہیں اور عورت محل جماع ہے ‘ کلبی کی روایت میں حضرت ابن عباس ؓ : کا قول آیا ہے کہ لہو سے مراد اولاد ہے۔ سدی کا بھی یہی قول ہے ‘ آدمی اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ کھیلتا اور دل بہلاتا ہے۔ لاَ تَّخَذْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّاکا یہ مطلب ہے کہ اگر ہم لہو کرنے والے ہی ہوتے تو اپنی شان کے مناسب ان چیزوں کو ذریعۂ لہو بناتے جو ہماری ذات کے مناسب ہوتیں ‘ مثلاً وہ مخلوق جو مادہ سے خالی ہے (مجردات ‘ ملائکہ) ہر چیز کا جوڑا اور ہر شخص کی اولاد اس کی ہم جنس ہوتی ہے اور اللہ کا ہم جنس کوئی نہیں ہے اس لئے اس کا جوڑا یا اولاد ہونا محال ہے اور ناممکن چیز سے اللہ کے ارادے کا تعلق ہوجائے یہ بھی محال ہے (موقوف علی المحال محال ہوتا ہے) اس آیت میں نصاریٰ کے عقیدے کی تردید ہے جو مسیح ( علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا اور مسیح ( علیہ السلام) کی ماں کو اللہ کی بیوی قرار دیتے ہیں۔ اِنْ کُنَّا فٰعِلِیْنَمیں اِنْ شرطیہ ہے۔ کلام سابق جزاء پر دلالت کر رہا ہے اس لئے جزاء کے ذکر کی ضرورت نہیں۔ قتادہ اور ابن جریج اور مقاتل کے نزدیک ان نافیہ ہے یعنی ہم ایسا کرنے والے نہیں۔ گویا یہ جملہ کلام سابق کا نتیجہ ہے۔
Top