Tafseer-e-Mazhari - Al-Anbiyaa : 57
وَ تَاللّٰهِ لَاَكِیْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ
وَتَاللّٰهِ : اور اللہ کی قسم لَاَكِيْدَنَّ : البتہ میں ضرور چال چلوں گا اَصْنَامَكُمْ : تمہارے بت (جمع) بَعْدَ : بعد اَنْ : کہ تُوَلُّوْا : تم جاؤگے مُدْبِرِيْنَ : پیٹھ پھیر کر
اور خدا کی قسم جب تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو میں تمہارے بتوں سے ایک چال چلوں گا
وت اللہ لاکیدن اصنامکن بعد ان تولوا مدبرین۔ اور خدا کی قسم میں تمہارے (ان) بتوں کی گت بناؤں گا جب تم ان کے پاس سے منہ پھیر کر چلے جاؤ گے۔ کَیْدَکا معنی ہے مکر۔ تدبیر۔ یہاں مراد ہے کہ کسی تدبیر سے میں ان کو توڑنے کی کوشش کروں گا۔ بیضاوی نے لکھا ہے ت قسمیہ واؤ قسمیہ سے بدل کر آئی ہے اس میں تعجب کا معنی ہے (واو قسمیہ میں تعجب کا معنی نہیں ہوتا) چونکہ بتوں کو توڑنا یا نقصان پہنچانا ایک مشکل کام تھا بت پرستوں کو نمرود کی اور ساری قوم کی حمایت حاصل تھی نمرود کی حکومت تھی ‘ ان سب کے مقابلہ میں بت شکنی عجیب بات تھی اس لئے (بجائے واؤ کے) ت قسمیہ اور لفظ کید کا استعمال کیا۔ (جوہری کے نزدیک کسی چیز کے متعلق برا ارادہ کرنے کو بھی کہتے ہیں ‘ 12) مُدْبِرِیْنَیعنی جب ان کو پیچھے چھوڑ کر میلہ میں چلے جاؤ گے تو میں ان کو نقصان پہنچانے اور توڑنے کی کوئی تدبیر کروں گا۔ بغوی نے مجاہد اور قتادہ کا قول نقل کیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ بات چپکے سے کہی تھی۔ سوائے ایک شخص کے اور کوئی نہیں سن سکا تھا۔ اسی نے یہ بات پھیلا دی اور اسی نے کہا تھا کہ ایک نوجوان جس کا نام ابراہیم ہے بتوں کا ذکر کر رہا تھا ہم نے خود سنا تھا۔ سدی نے کہا قوم نمرود کا سالانہ تہوار ایک میلہ ہوتا تھا جب وہ میلہ سے واپس آتے تھے تو سیدھے بتوں کے پاس آتے تھے ان کو سجدے کرتے تھے پھر گھروں کو جاتے تھے حسب معمول جب میلہ کا وقت آیا تو حضرت ابراہیم سے ان کے باپ نے کہا تم بھی اگر ہمارے ساتھ میلے کو چلو تو بہتر ہے ہمارا دین (رواج ‘ مذہبی دستور) تم کو پسند آئے گا۔ باپ کے کہنے سے حضرت ابراہیم ان کے ساتھ ہو لئے کچھ ہی راستہ طے کیا تھا کہ آپ نے خود اپنے کو زمین پر گرا لیا اور کہنے لگے میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے آپ کا مطلب یہ تھا کہ میرے پاؤں میں چوٹ آگئی ہے جب سب لوگ چلے گئے اور صرف کمزور لوگ پیچھے رہ گئے تو حضرت نے پکار کر وہ الفاظ کہے جن کا ذکر آیت میں کیا گیا ہے لوگوں نے آپ کے الفاظ سن لئے پھر حضرت ابراہیم لوٹ آئے اور بت خانہ کی طرف پہنچے تمام بت ایک بڑے کمرے میں قطار بند رکھے ہوئے تھے بت خانہ کے دروازے کے سامنے سب سے بڑا بت تھا اس کے برابر اس سے چھوٹا پھر اس کے برابر اس سے بھی چھوٹا اسی طرح سب کی قطار تھی اور سب کے سامنے تیار کھانا بھی رکھا ہوا تھا کھانا اس لئے سب کے سامنے چنا گیا تھا کہ بتوں کی وجہ سے کھانے میں برکت آجائے اور میلہ سے واپس آکر سب لوگ اس کو کھائیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بطور استہزاء بتوں سے فرمایا تم کھاتے کیوں نہیں جب کوئی جواب نہیں ملا تو فرمایا تمہیں کیا ہوگیا تم بولتے کیوں نہیں اس کے بعد بتوں کی طرف مڑے اور دائیں ہاتھ سے اس قسم کی وجہ سے جو بتوں کو توڑنے کے سلسلے میں آپ نے کھائی تھی اور فرمایا تھا تالِلّٰہِ لَاَ کِیْدَنَّ اَصْنَامَکُمْبتوں پر ضرب لگائی (آیت میں آیا ہے فَرَاغَ عَلَیْہِمْ ضَرْباً بالْیَمْیِنِ اور یمین دائیں ہاتھ کو بھی کہتے ہیں اور قسم کو بھی (مترجم) ۔
Top