Tafseer-e-Mazhari - Al-Hajj : 51
وَ الَّذِیْنَ سَعَوْا فِیْۤ اٰیٰتِنَا مُعٰجِزِیْنَ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ
وَ : اور الَّذِيْنَ سَعَوْا : جن لوگوں نے کوشش کی فِيْٓ : میں اٰيٰتِنَا : ہماری آیات مُعٰجِزِيْنَ : عاجز کرنے (ہرانے) اُولٰٓئِكَ : وہی ہیں اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ : دوزخ والے
اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں میں (اپنے زعم باطل میں) ہمیں عاجز کرنے کے لئے سعی کی، وہ اہل دوزخ ہیں
والذین سعوا فی ایتنا معجزین اولئک اصحب الجحیم۔ اور جو لوگ (رد کرنے کیلئے) ہماری آیات کے متعلق کوشش کرتے رہتے ہیں (پیغمبر اور اہل ایمان کو) ہرانے کے لئے ایسے ہی لوگ دوزخی ہیں۔ مُعٰجِزِیْنَیعنی عناد اور سخت مخالفت کا مظاہرہ کرتے ہوئے۔ قتادہ نے یہ مطلب بیان کیا کہ وہ اپنے خیال میں ہمیں ہرانا چاہتے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ نہ قیامت ہوگی نہ جنت و دوزخ۔ یا یہ مطلب ہے کہ وہ ہمارے قبضہ سے نکل جائیں گے ہم ان پر قادر نہ ہو سکیں گے۔ یا یہ مطلب ہے کہ وہ ہم سے مقابلہ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم پر غالب آجائیں اور ہماری گرفت سے باہر ہوجائیں۔ میں کہتا ہوں معاجزین کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ہمارے رسول کو عاجز بنا دینا چاہتے ہیں ‘ پیغمبر ﷺ تو ان کو دوزخ میں داخل ہونے سے روکتے ہیں اور وہ جہنم میں (زور کر کے) گھسے جاتے ہیں۔ شیخین نے صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے آگ روشن کی جب آگ خوب روشن ہوگئی اور گردوپیش میں روشنی پھیل گئی تو پروانے اور یہ کیڑے مکوڑے جو آگ میں گرا کرتے ہیں اس میں گرنے لگے وہ شخص پتنگوں اور کیڑوں کو آگ میں گرنے سے روکتا رہا مگر پتنگے اس پر غالب آئے اور آگ میں گھسنے لگے میں بھی اسی طرح تم کو کمر پکڑ پکڑ کر دوزخ میں گھسنے سے روک رہا ہوں اور تم اس کے اندر گھسے پڑتے ہو۔ بغوی نے لکھا ہے حضرت ابن عباس ؓ اور محمد بن کعب قرظی نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ سے آپ کی قوم والوں نے رخ پھیرلیا اور کلام اللہ سے ان کا دور دور رہنا حضور ﷺ : کو شاق گزرا تو آپ کے دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کاش اللہ کی طرف سے کوئی طریقہ ایسا پیدا ہوجاتا جس سے قوم والے آپ کے قریب آجاتے آپ کو قوم والوں کے مسلمان ہوجانے کی بڑی ہی رغبت تھی۔ چناچہ ایک روز آپ قریش کے جلسہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ سورة النجم نازل ہوئی آپ نے لوگوں کے سامنے پڑھ کر سنائی جب پڑھتے پڑھتے آیت اَفَرَأَیْتُمُ اللاَّتَ وَالْعُزّٰیِ وَمَنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْرٰی پر پہنچے تو شیطان نے وہ دلی خواہش جو آپ کے سینہ میں پیدا ہوتی رہتی تھی زبان سے نکلوا دی اور (بےارادہ) آپ کی زبان سے آیت مذکور کے بعد نکل گیا تِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلٰی وَاِنَّ شَفَاعَتَہُنَّ لَتُرْتَجٰی قریش نے جو یہ الفاظ سنے تو بڑے خوش ہوئے اور رسول اللہ ﷺ اپنی تلاوت میں مستغرق رہے اور اس طرح سورة ختم کرلی تو آخر سورة میں سجدہ کیا۔ آپ کے سجدہ کرنے کی وجہ سے تمام مسلمانوں نے بھی سجدہ کیا اور کعبہ میں جو مشرک موجود تھے انہوں نے بھی سجدہ کیا۔ کوئی مسلمان یا مشرک بغیر سجدہ کئے نہیں رہا صرف ولید بن مغیرہ اور سعید بن عاص نے سجدہ نہیں کیا اور ایک ایک مٹھی کنکریاں اٹھا کر اپنی پیشانی سے لگا لیں (اور بولے ہمارے لئے یہی کافی ہے) بات یہ تھی کہ یہ دونوں بہت بوڑھے تھے سجدہ کرنے کی ان میں طاقت نہ تھی اس کے بعد قریش منتشر ہوگئے اور اپنے معبودوں کا جو ذکر سنا تھا اس سے بڑے خوش تھے اور کہہ رہے تھے اب تو محمد ﷺ نے بھی ہمارے معبودوں کا ذکر اچھے الفاظ میں کردیا ‘ ہم کو اقرار ہے اور ہم جانتے ہیں کہ اللہ ہی زندگی اور موت دیتا ہے وہی پیدا کرتا اور رزق دیتا ہے لیکن ہمارے یہ معبود اللہ کے دربار میں ہماری سفارش کریں گے اب جبکہ محمد ﷺ نے بھی ان کو ان کا حصہ دے دیا تو اب ہم محمد ﷺ کے ساتھ ہیں۔ غرض شام ہوئی تو رسول اللہ ﷺ کے پاس حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) آئے اور کہا محمد ﷺ آپ نے یہ کیا کیا کہ جو کلام میں آپ کے پاس اللہ کی طرف سے لایا تھا ‘ اس کے سوا دوسرے کلام کی لوگوں کے سامنے آپ نے تلاوت کی۔ حضور والا یہ بات سن کر بہت غمگین ہوئے اور آپ کو اللہ (کی طرف سے عتاب) کا بڑا ڈر لگا اس پر اللہ نے آیت (وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ ) نازل ہوئی اس میں اللہ نے آپ کو تسلی عطا فرمائی ہے جو صحابی اس زمانہ میں حبش میں تھے ان کو جو اطلاع ملی کہ قریش نے بھی سجدہ کیا اور یہ بھی کہا گیا کہ قریش مسلمان ہوگئے تو ان میں سے اکثر لوگ اپنے اپنے قبائل میں واپسی کے ارادے سے چل دیئے اور بولے مکہ والوں سے ہمیں محبت ہے لیکن جب مکہ کے قریب پہنچے تو ان کو اطلاع ملی کہ اہل مکہ کے مسلمان ہونے کی جو خبر ان کو پہنچی تھی وہ غلط تھی چناچہ یہ لوگ مکہ میں چھپ چھپا کر داخل ہوئے یا کسی کی پناہ لے کر۔
Top