Tafseer-e-Mazhari - Al-Muminoon : 101
فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَلَاۤ اَنْسَابَ بَیْنَهُمْ یَوْمَئِذٍ وَّ لَا یَتَسَآءَلُوْنَ
فَاِذَا : پھر جب نُفِخَ : پھونکا جائے گا فِي الصُّوْرِ : صور میں فَلَآ اَنْسَابَ : تو نہ رشتے بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان يَوْمَئِذٍ : اس دن وَّلَا يَتَسَآءَلُوْنَ : اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے
پھر جب صور پھونکا جائے گا تو نہ تو ان میں قرابتیں ہوں گی اور نہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے
فاذا نفخ فی الصور فلا انساب بینہم یومئذ ولا یتسآء لون۔ پھر جب (قیامت میں) صور پھونکا جائے گا تو ان میں باہمی رشتے ناتے اس روز نہ رہیں گے اور نہ کوئی کسی کو پوچھے گا۔ سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس ؓ : کا قول نقل کیا ہے کہ صور پھونکے جانے سے مراد اس جگہ پہلا نفخۂ صور ہے۔ یعنی نفخۂ بیہوشی ‘ جس کے متعلق فرمایا ہے فَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ فَلاَ اَنْسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَءِذٍ وَلاَ یَتَسَآءَ لُوْنَجب صور پھونکا جائے گا تو جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں سب بےہوش ہوجائیں گے اور اس روز ان کے درمیان (دنیا والی) رشتہ داریاں نہیں رہیں گی اور نہ کوئی کسی کو پوچھے گا۔ ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ اُخْرٰی فَاِذَا ہُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو یک دم سب (اٹھ کے) کھڑے ہوجائیں گے اور (حیرت سے) دیکھتے ہوں گے۔ وَاَقَبْلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَتَسَآءَ لُوْنَاور ایک دوسرے کی جانب رخ کر کے باہم پوچھیں گے۔ الخ صحیح یہ ہے کہ آیت میں نفخہ سے مراد نفخۂ بعث (جس کے بعد سب لوگ زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے) مراد ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا قیامت کے دن بندے یا بندی کا ہاتھ پکڑ کر علی الاعلان سب اگلوں پچھلوں کے سامنے کھڑا کیا جائے گا اور ایک منادی ندا دے گا ‘ یہ فلاں بن فلاں ہے اس کی طرف کسی کا حق ہو تو وہ اپنا حق لینے آجائے اس وقت جس شخص کا اپنے باپ یا بیٹے یا بی بی یا بھائی پر کوئی حق ہوگا وہ خوش ہوگا اور اپنا حق وصول کرے گا۔ اس کے بعد حضرت ابن مسعود ؓ نے آیت فلاَ اَنْسَابَ ۔۔ پڑھی۔ عطا کی روایت میں حضرت ابن عباس ؓ کا قول بھی آیا ہے کہ اس جگہ نفخہ سے مراد دوسرا نفخہ ہے۔ فَلاَ اَنْسَابَ بَیْنَہُمْ یعنی دنیا میں تو شرافت نسب پر فخر کرتے تھے ‘ قیامت کے دن کوئی کسی پر نسبی (اور نسلی) فخر نہ کرسکے گا۔ یا یہ مطلب ہے کہ رشتے ناطے اس روز فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔ کیونکہ سب اتنے وحشت زدہ اور حیران ہوں گے کہ کوئی کسی سے محبت نہیں کرے گا اور آپس میں مہربانی کا جذبہ معدوم ہوجائے گا اور یہ حالت ہوجائے گی کہ آدمی اپنے بھائی اور ماں باپ اور بیوی بچوں سے بھی بھاگے گا۔ بَیْنَہُمْکی ضمیر کافروں کی طرف راجع ہے ‘ کافروں ہی کا ذکر اس سے پہلے کیا گیا ہے مؤمن مراد نہیں ہیں ‘ مؤمنوں کے متعلق تو اللہ نے فرمایا ہے (اَلْحَقْنَابِہِمْ ذُرِّیَّتَہُم) ْہم ان کے ساتھ ان کی اولاد کو بھی شامل کردیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ‘ قیامت کا دن ہوگا تو اس روز مسلمانوں کے لڑکے نکلیں گے (یعنی کوثر و تسنیم کے پاس سے ایسی حالت میں برآمد ہوں گے) کہ ان کے ہاتھوں میں شربت (شراب طہور) ہوگا۔ لوگ ان سے کہیں گے ہم کو پلا دو ‘ وہ جواب دیں گے (نہیں) ہم اپنے ماں باپ کو پلائیں گے۔ اپنے ماں باپ کو پلائیں گے ‘ یہاں تک کہ ساقط شدہ بچہ بھی جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا کہے گا جب تک میرے باپ اندر نہ جائیں گے میں اندر داخل نہ ہوں گا۔ رواہ ابن ابی الدنیا عن عبداللہ بن عمر اللیثی۔ ابو ذرارہ کی حدیث بھی اسی کے ہم معنی آئی ہے۔ ایک شبہ ابن عساکر نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ابن عمر ؓ کی راویت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن میرے نسبی اور سسرالی ناتے کے علاوہ ہر نسبی اور سسرالی رشتہ ٹوٹ جائے گا۔ جواب مؤمنوں کی نسبی رشتہ داریاں رسول اللہ ﷺ کے ضمن میں داخل ہیں۔ حضور ﷺ سب مسلمانوں کے باپ تھے ‘ اور آپ کی بیبیاں مسلمانوں کی مائیں تھیں۔ (پس آپ کا رشتہ منقطع نہ ہوگا یعنی مؤمنوں کے رشتے ناطے منقطع نہ ہوں گے) ۔ بغوی نے کہا ‘ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن کوئی ذریعہ اور نسب سود مند نہ ہوگا سوائے رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ اور نسبت کے ‘ یعنی سوائے قرآن و ایمان کے۔ وَلاَ یَتَسَآءَ لُوْنَکا یہ مطلب ہے کہ باہم رشتے نہیں پوچھیں گے جیسے دنیا میں پوچھا کرتے تھے کہ تم کس خاندان اور کس قبیلے سے ہو۔ ایک شبہ اللہ نے دوسری آیت میں فرمایا ہے (وَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَتَسَآءَ لُوْنَ ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ باہم احوال دریافت کریں گے۔ جوابحضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا قیامت کے احوال اور مواقع مختلف ہوں گے کسی مقام پر تو اتنا خوف طاری ہوگا کہ کوئی کسی کو نہ پوچھے گا اور بعض مواقع ایسے بھی آئیں گے کہ ذرا افاقہ اور سکون ہوگا اس وقت ایک دوسرے کی حالت دریافت کرے گا۔
Top