Urwatul-Wusqaa - An-Naml : 25
اَلَّا یَسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِیْ یُخْرِجُ الْخَبْءَ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ یَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَ
اَلَّا : کہ نہیں يَسْجُدُوْا لِلّٰهِ : وہ سجدہ کرتے اللہ کو الَّذِيْ : وہ جو يُخْرِجُ : نکالتا ہے الْخَبْءَ : چھپی ہوئی فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَيَعْلَمُ : اور جانتا ہے مَا تُخْفُوْنَ : جو تم چھپاتے ہو وَمَا : اور جو تُعْلِنُوْنَ : تم ظاہر کرتے ہو
وہ اللہ ہی کو سجدہ کیوں نہیں کرتے جو آسمانوں اور زمین میں چھپی ہوئی چیزوں کو ظاہر کرتا ہے اور جو کچھ تم چھپاتے یا ظاہر کرتے ہو سب جانتا ہے
ہدہد نے توحید الہی کا بیان دے کر ثابت کردیا کہ وہ اس عہدہ کا اہل ہے جس پر وہ تعین ہے : 25۔ توحید کا مضمون بڑا عجیب ہے اور موحد کا حال بھی کچھ عجیب ہی قسم کا ہے کہ جب توحید الہی کا بیان آتا ہے تو وہ بےساختہ ہوجاتا ہے اور توحید کے مضمون کو آگے سے آگے ہی بڑھاتا چلا جاتا ہے ، یہی حال ہدہد کا ہوا کہ اس نے بات تو ملکہ سبا کی اور اس ملک کے حالات کی شروع کی تھی لیکن جونہی توحید کی بات آئی تو وہ توحید الہی کے دریا میں اس طرح مستغرق ہوگیا کہ اس کو یاد ہی نہ رہا کہ وہ بات کیا کرنے کے لئے حاضر ہوا ہے ‘ اس کو کس مقصد کے لئے بلایا گیا تھا اور اس نے وہ مقصد بیان کرنے کے ساتھ ہی گویا دربار سلیمان میں وعظ شروع کردیا اور جب وہ اس دریا میں غرق ہو رہا تو کسی نے بھی اس کی توجہ اس طرح نہیں ملتفت کرائی کہ صاحب تم بیان کیا کرنے آئے تھے اور ایک غیر متعلق بات کیسے شروع کردی ‘ کیوں ؟ اس لئے کہ یہ مضمون ہی اس قسم کا ہے کہ اس کے بیان کرتے ہیں انسان گویا بےخود سا ہوجاتا ہے کچھ اس طرح کی حالت ہدہد کی بھی وہاں ہوئی ، ہمارے مفسرین نے آیت 25 ‘ 26 کو ہدہد کا بیان قرار نہیں دیا بلکہ کہا ہے کہ یہ ایک تضمین ہے کہ توحید الہی کی یہ دونوں آیات ہدہد کے بیان کے ساتھ ملا دی گئی ہیں ۔ بلاشبہ اس طرح کی مثالیں قرآن کریم میں موجود ہیں کہ ایک مضمون بیان کرتے کرتے درمیان میں کوئی خاص ہدایت دی جاتی ہے جو اس کے متعلق ہوتی ہے ، مفسرین کو جب یہ معلوم ہوا کہ وہ تو ایک پرندہ ہے اور تقریر اس طرح شروع کردی کہ ہم اگر باوجود مفسر قرآن ہونے کے بھی کچھ کہیں یا تحریر کریں تو اس طرح آزادی کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے اور اس طرح فی البدیہ نہیں بول سکتے تو انہوں نے ان آیا ہی کو اس کے بیان سے خارج کردیا بلاشبہ یہ مضمون ان کے اصل بیان کے متعلق نہیں لیکن اس کے عہدے کے عین مطابق ہے کہ اگر اس کے ذمہ کوئی مزید ڈیوٹی لگا دی گئی تو وہ انشاء اللہ اس کو بدرجہ اتم نباھنے کے قابل ہے پھر بادشاہ کے سامنے کچھ عرض کرنے کا وقت روز روز میسر بھی نہیں آسکتا اس لئے دراصل اس نے وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے اپنے علمی بصیرت کا بھرپور مظاہرہ بھی کردیا ہے کیونکہ ایسا موقعہ ہر روز میسر نہیں آسکتا اور یہ بھی کہ جب تک کوئی شخص بولتا نہیں تو اس کے عیب وہنر واضح نہیں ہوتے ۔
Top