Ruh-ul-Quran - An-Naml : 25
اَلَّا یَسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِیْ یُخْرِجُ الْخَبْءَ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ یَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَ
اَلَّا : کہ نہیں يَسْجُدُوْا لِلّٰهِ : وہ سجدہ کرتے اللہ کو الَّذِيْ : وہ جو يُخْرِجُ : نکالتا ہے الْخَبْءَ : چھپی ہوئی فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَيَعْلَمُ : اور جانتا ہے مَا تُخْفُوْنَ : جو تم چھپاتے ہو وَمَا : اور جو تُعْلِنُوْنَ : تم ظاہر کرتے ہو
شیطان نے ان کو صحیح راہ سے روک دیا ہے) کہ وہ اللہ کو سجدہ نہ کریں جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے اور وہ جانتا ہے جسے تم لوگ چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو
اَلاَّیَسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِیْ یُخْرِجُ الْخَبْ ئَ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَیَعْلَمُ مَاتُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ ۔ اَللّٰہُ لَآ اِلٰـہَ اِلاَّ ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ ۔ (النمل : 25، 26) (شیطان نے ان کو صحیح راہ سے روک دیا ہے) کہ وہ اللہ کو سجدہ نہ کریں جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے اور وہ جانتا ہے جسے تم لوگ چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔ ) یہ تضمین ہے علامہ قرطبی اور بعض دیگر کبار مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت ہدہد کا کلام نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے جو بطور تضمین اس کے ساتھ شامل ہے۔ اس میں خطاب مشرکینِ مکہ سے ہے کیونکہ یہ قصہ سنانے کا حقیقی مقصد یہی حقیقت ان کے سامنے واضح کرنا ہے۔ ہدہد کا کلام گزشتہ آیت پر ختم ہوگیا۔ اس نے جب یہ کہا کہ میں نے قوم سبا کو دیکھا ہے، وہ سورج کو سجدہ کرتے ہیں، یعنی ان کے تمام اعمال کی بنیاد شرک کا عقیدہ ہے، اور باقی ان کی تمام خرابیاں اسی سے پھوٹی ہیں۔ اور ان کے انتہائی لغو اور غلط اعمال کو شیطان نے ان کے سامنے اس طرح مزین کردیا ہے کہ وہ صراط مستقیم سے روک دیئے گئے ہیں۔ چناچہ اس کے بعد پروردگار نے کلام کو حسب حال بنانے اور بات کو مکمل کرنے کے لیے فرمایا کہ یہ بصیرت سے محرومی اس حد تک راسخ ہوگئی ہے کہ وہ اس خدا کی بندگی کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں جو ہر آن ان چیزوں کو ظہور میں لا رہا ہے جو پیدائش سے پہلے نہ معلوم کہاں کہاں پوشیدہ تھیں۔ اور وہ زمین و آسمان کے تمام مخفی اسرار کو بےنقاب کر رہا ہے اور تمہاری ان تمام باتوں سے واقف ہے جنھیں تم چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اگر اپنی بےبصیرتی سے نکلنے میں کامیاب ہوجائے تو اسے اندازہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اِلٰہ بننے کے لائق نہیں۔ وہی ان تمام چیزوں کا خالق ومالک اور اللہ وحدہ لاشریک ہے۔ دنیا شہنشاہوں کے تخت دیکھ کر ان کی عظمتوں کے فریب میں مبتلا ہوجاتی ہے جبکہ حقیقت میں عرش عظیم کا مالک وہی اللہ ہے جو ہر طرح کے شرک سے پاک ہے۔ فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس مقام پر سجدہ واجب ہے۔ اسے سجدہ تلاوت کہا جاتا ہے۔ یہاں سجدہ کرنے سے مقصود یہ ہے کہ ایک مومن اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہو کر ثابت کردے کہ میں ان آفتاب پرستوں سے بیزار ہوں جن کا ذکر اس سے پہلی آیت میں کیا گیا ہے۔ اور میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور آستانے پر جھکنے اور کسی اور عظمت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
Top