Tafseer-e-Mazhari - Aal-i-Imraan : 169
وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا١ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرْزَقُوْنَۙ
وَلَا : اور نہ تَحْسَبَنَّ : ہرگز خیال کرو الَّذِيْنَ : جو لوگ قُتِلُوْا : مارے گئے فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ اَمْوَاتًا : مردہ (جمع) بَلْ : بلکہ اَحْيَآءٌ : زندہ (جمع) عِنْدَ : پاس رَبِّھِمْ : اپنا رب يُرْزَقُوْنَ : وہ رزق دئیے جاتے ہیں
جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا (وہ مرے ہوئے نہیں ہیں) بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں اور ان کو رزق مل رہا ہے
و لا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا اور جو لوگ راہ خدا میں مارے گئے ان کو مردہ نہ کہو 1 ؂۔ ترمذی نے باسناد حسن اور ابن خزیمہ نے بسند صحیح اور ابن ماجہ اور بغوی نے بیان کیا ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ نے فرمایا : رسول اللہ مجھے ملے اور فرمایا : جابر کیا سبب ہے میں تجھے کچھ شکستہ (خاطر) دیکھ رہا ہوں میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ میرا باپ شہید ہوگیا اور اس کے بچے رہ گئے اور اس پر قرض بھی ہے فرمایا : کیا تجھے بشارت نہ دوں کہ اللہ تیرے باپ سے کس طرح ملا میں نے عرض کیا : کیوں نہیں فرمائیے۔ ارشاد فرمایا : اللہ نے جس سے بھی کلام کیا پردہ کی اوٹ سے کیا مگر تیرے باپ کو زندہ کرکے رو در رو کلام کیا اور فرمایا : میرے بندے اپنی آرزو مجھ سے بیان کر میں تجھے دوں گا۔ تیرے باپ نے کہا میرے رب مجھے پھر زندہ کردے کہ میں دوبارہ تیری راہ میں مارا جاؤں اللہ نے فرمایا : میرا فیصلہ پہلے ہوچکا ہے کہ (مرنے کے بعد) پھر وہ نہیں لوٹیں گے راوی کا بیان ہے پھر ان شہداء کے بارے میں نازل ہوئی آیت : لا تحسبن الذین قتلوا۔۔ مسلم، امام احمد، ابو داؤد، حاکم اور بغوی نے حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : کہ احد کے دن جب تمہارے بھائی مارے گئے تو اللہ نے ان کی روحوں کو سبز پرندوں کے پوٹوں میں داخل کردیا وہ جنت کی نہروں پر اترتے ہیں (یعنی انہار جنت کا پانی پیتے ہیں) جنت کے پھل کھاتے ہیں اور جنت میں جہاں چاہتے ہیں سیر کرتے پھرتے ہیں اور لوٹ کر سونے کی ان قندیلوں میں چلے جاتے ہیں جو عرش کے نیچے آویزاں ہیں جب انہوں نے اپنی عمدہ خواب گاہ اور کھاناپینا دیکھا اور اللہ نے ان کے لیے جو عزت فراہم کی ہے اس کا معاینہ کیا تو بولے کاش ہماری قوم کو ہماری اس موجودہ راحت اور اس سلوک کی جو اللہ نے ہمارے ساتھ کیا اطلاع ہوجاتی تاکہ ان کو بھی جہاد کی رغبت ہوتی اور وہ جہاد سے رو گرداں نہ ہوتے اللہ نے فرمایا : میں تمہاری طرف سے اطلاع دیدوں گا اور تمہارے بھائیوں کو خبر پہنچا دوں گا شہداء یہ سن کو خوش اور ہشاش بشاش ہوگئے پس اللہ نے (آیت مذکورہ) نازل فرمادی۔ ابن المنذرنے حضرت انس کی روایت سے بیان کیا کہ جب حضرت حمزہ اور آپ کے ساتھی احد کے دن شہید ہوگئے تو شہداء نے کہا کاش کوئی خبر پہنچانے والا ہمارے بھائیوں کو اللہ کی عطا کردہ اس عزت کی جس میں ہم آگئے ہیں اطلاع دیدیتا اللہ نے ان کو وحی بھیجی کہ میں تمہارے بھائیوں کو تمہارا پیام پہنچا دوں گا پس اللہ نے آیت : لا تحسبن الذین قتلوا۔۔۔ لا یضیع اجر المؤمنین تک نازل فرمائی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ شہداء کے اعزہ و اقارب کو جب (دنیا میں) کچھ راحت اور نعمت ملتی تو ان کو افسوس ہوتا کہ ہم تو ایسے مزے میں ہیں اور ہمارے باپ بھائی بیٹے قبروں میں ہیں (کاش وہ بھی ہمارے ساتھ ہوتے) اس پر اللہ نے آیت مذکورہ نازل فرمائی۔ و لا تحسبن کا خطاب یا رسول اللہ کو ہے یا شہیدوں کے اقارب کو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ منافقوں کو خطاب ہو کیونکہ (بطور طعن) انہوں نے کہا تھا : لو اطاعونا ما قتلوا اس وقت یہ آیت قل کے ذیل میں داخل ہوگی (یعنی قل کا مفعول ہوگی) سبیل اللہ سے مراد ہے جہاد۔ یہ لفظ عام ہے ہر راہ خیر میں مرنے والے کو شامل ہے مگر لفظ قتل کی وجہ سے دوسرے خیر کے راستوں میں مرنے والوں کو صراحۃً شمول نہ ہوگا مگر بدلالت نص بدرجۂ اولیٰ یا کم سے کم بالمساوات شمول ہوجائے گا یا نفس کے ساتھ جہاد کرنے والے کو مقتول فی سبیل اللہ پر قیاس کیا جائے گا کیونکہ اپنے نفس سے جہاد کرنا جہاد اکبر ہے اور جہاد اصغر سے زیادہ سخت ہے۔ اموات سے مراد ہے وہ مردے جن کو لذت و راحت کا احساس نہ ہو۔ بل احیاء بلکہ وہ زندہ ہیں ابو العالیہ نے اس فقرہ کی تشریح میں کہا کہ وہ سبز پرندوں کی شکلوں پر ہیں جنت کے اندر جہاں چاہتے ہیں اڑتے ہیں رواہ ابو حاتم بغوی نے لکھا ہے کہ روز قیامت تک ہر رات عرش کے نیچے ان کی روحیں رکوع اور سجدہ کرتی رہیں گی۔ ابن منذر راوی ہیں کہ حضرت طلحہ بن عبد اللہ نے فرمایا : میں جنگل میں اپنے اونٹوں کی تلاش میں گیا وہاں مجھے رات ہوگئی تو میں عبد اللہ بن عمرو بن حرام کی قبر کے پاس قیام پذیر ہوگیا وہاں قبر کے اندر سے مجھے قرآن پڑھنے کی ایسی اچھی آواز آئی کہ اس سے بہتر آواز میں نے نہیں سنی میں نے واپس آکر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کا تذکرہ کیا فرمایا : وہ عبد اللہ تھا کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ نے ان (شہداء) کی ارواح قبض کرنے کے بعد زمرد اور یاقوت کی قندیلوں میں رکھ کر وسط جنت میں ان قندیلوں کو لٹکا دیا ہے جب رات ہوتی ہے تو ان کی روحیں واپس لوٹ دی جاتی ہیں اور رات بھر ایسی ہی رہتی ہیں پھر فجر نکلتی ہے تو روحوں کو پھر ان کے اصلی مقامات پر (قندیلوں کے اندر) واپس کردیا جاتا ہے۔ اس قول پر شہید کو مرنے کے بعد کی طاعات کا ثواب اور درجے بھی ملتے رہتے ہیں اور شہید قبر کے اندر گلتا سڑتا نہیں اور نہ اس کو زمین کھاتی ہے یہ اس کی زندگی کے نشانوں میں سے ایک نشان ہوتا ہے۔ بیہقی نے اپنی سندوں سے اور ابن سعد و بیہقی نے دوسرے طریقوں سے اور محمد بن عمرو نے اپنے مشائخ کی سند سے نقل کیا ہے کہ حضرت جابر نے فرمایا : جب معاویہ ؓ نے چشمہ (نہر) جاری کرایا تو ہم اپنے شہداء احد کے مزاروں پر چیختے ہوئے پہنچے اور ان کو باہر نکالا تو دیکھا وہ تر وتازہ ہیں اور ان کے ہاتھوں اور پاؤں میں (زندوں کی طرح) لچک ہے۔ محمد بن عمرو کے مشائخ کا بیان ہے کہ لوگوں نے حضرت جابر کے والد کو ایسی حالت میں پایا کہ ان کا ہاتھ اپنے زخم پر رکھا ہوا تھا جب ہاتھ زخم سے الگ کیا گیا تو خون ابلنے لگا مجبوراً ہاتھ کو پھر اس کی جگہ لوٹا دیا گیا تو خون تھم گیا۔ حضرت جابر کا بیان ہے میں نے اپنے باپ کو قبر کے اندر دیکھا معلوم ہوتا تھا کہ سو رہے ہیں اور جس دھاری دار کمبلی کا ان کو کفن دیا گیا تھا وہ بھی ویسی ہی تھی حالانکہ اس کو چھیالیس برس ہوچکے تھے ان شہداء میں ایک شخص کی ٹانگ میں (زمین کھودتے وقت) پھاوڑا لگ گیا تو اس سے خون ابل پڑا مشائخ نے کہا یہ حضرت حمزہ ؓ تھے۔ حضرت ابو سعید خدری نے فرمایا : اس کے بعد کوئی منکر (حیات شہداء کا) انکار نہیں کرسکتا۔ لوگ (ان مزاروں کی) مٹی کھودتے تھے۔ جب تھوڑی سی ہی مٹی کھودتے تھے تو مشک کی خوشبو مہکنے لگتی تھی۔ بغوی نے حضرت عبید بن عمیر کا بیان نقل کیا ہے کہ احد سے واپسی کے وقت رسول اللہ کا گذر حضرت مصعب بن عمیر (شہید احد) کی طرف سے ہوا مصعب شہید ہوچکے تھے آپ ﷺ ان کے پاس کھڑے ہوگئے اور ان کے لئے دعا کی پھر یہ آیت پڑھی : من المؤمنین رجال صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ پھر فرمایا : میں شہادت دیتا ہوں کہ قیامت کے دن یہ سب اللہ کے نزدیک شہید ہوں گے متنبہ ہوجاؤ تم ان کے پاس آیا کرو ان کی زیارت کیا کرو اور ان کو سلام کہا کرو قسم ہے اسکی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قیامت تک جو کوئی ان کو سلام کرے گا وہ ضرور اس کے سلام کا جواب دیں گے۔ حاکم اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے اور بیہقی نے حضرت ابوذر کی روایت سے اور ابن مردویہ نے حضرت خباب بن ارت کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ حضرت مصعب بن عمیر کی طرف سے گذرے حضرت مصعب حضور ہی کے راستہ پر شہید پڑے تھے آپ ﷺ وہاں ٹھہر گئے ان کے لیے دعا کی پھر پڑھا : من المؤمنین رجال صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ۔۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا : میں نے تجھے مکہ میں دیکھا تھا کہ تجھ سے زیادہ مکہ میں نہ کوئی خوش لباس تھا نہ حسین بالوں والا (یعنی نہ تجھ سے زیادہ خوش جمال اور آج اللہ کی راہ میں تیری یہ حالت ہوگئی کہ تجھ مثلہ کیا گیا ) ۔ سوال کیا شہید کے مرتبہ کو کوئی پہنچ سکتا ہے ؟ جواب ہاں پہنچ سکتا ہے شہداء کے فضائل جو کچھ بیان کئے گئے ہیں ان کا اقتضا یہ نہیں کہ دوسرے وہاں تک نہ پہنچیں۔ ابو داؤد اور نسائی نے حضرت عبید بن خالد کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ نے دو آدمیوں میں بھائی چارہ کرادیا ان میں سے ایک راہ خدا میں شہید ہوگیا پھر تقریباً ایک جمعہ کے بعددوسرا بھی مرگیا لوگوں نے اس کی نماز پڑھی رسول اللہ نے فرمایا : تم نے (نماز میں اس کے لیے) کیا کہا لوگوں نے عرض کیا : ہم نے اللہ سے دعا کی کہ اللہ اس کی مغفرت فرما دے اس پر رحم کرے اور اور اس کو اس کے ساتھی تک پہنچا دے (یعنی اس کو بھی شہید کا درجہ مل جائے) حضور ﷺ نے فرمایا : تو پھر اس کی نمازوں کے بعد اس کی نمازیں اور اس کے اعمال کے بعد والے اس کے اعمال یا فرمایا اس کے روزوں کے بعد والے اس کے روزے کہاں جائیں گے ان دونوں کے درمیان (مرتبہ) کا فاصلہ تو اتنا ہے جتنا آسمان زمین کا (یعنی بعد کو مرنے والا پہلے شہید ہونے والے سے مرتبہ میں بہت اونچا ہے اس کی نمازیں اور روزے اس سے زائد ہیں) انبیاء شہدا صدیقین اور مؤمنین کے مقامات کا بیان ہم نے سورة المطففین میں کیا ہے اور حیوۃ شہداء کا مسئلہ سورة بقرہ کی آیت : و لا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات کی تفسیر کے ذیل میں ذکر کردیا ہے۔ عندربھم اپنے رب کے پاس یعنی اللہ کے قرب میں جو بلا کیف ہے (جسمانی اور مکانی نہیں انضمامی ادغامی اور نسبی نہیں ان سب سے الگ ایک ایسا قرب ہے جس کی کیفیت بیان نہیں کی جاسکتی نہ سمجھی جاسکتی ہے یعنی قرب اعزازی ہے) شیخ شہید نے جو میرے شیخ و امام تھے (غالباً حضرت مؤلف قدس سرہ کی شیخ شہید سے مراد حضرت مرزا مظہر جان جاناں کی ذات مبارک ہے) کہ شہداء پر تجلیات ذاتیہ کی بارش کو کشف کی آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ ان لوگوں نے اللہ کی راہ میں اپنی جانیں دیدیں اور اللہ نے فرمایا ہے : و ما تقدموا لانفسکم من خیر تجدوہ عند اللہ پس ان لوگوں نے اپنے لیے اپنی ذاتیں (ہستیاں) خرچ کردیں لہٰذا اللہ بھی ان کو خالص تجلیات ذاتیہ عطا فرمائے گا۔ یرزقون یعنی ان کو جنت سے رزق دیا جاتا ہے یہ ان کے زندہ ہونے کی تائید ہے۔
Top