Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 51
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ١ؔۘ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ١ؕ وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَتَّخِذُوا : نہ بناؤ الْيَھُوْدَ : یہود وَالنَّصٰرٰٓى : اور نصاریٰ اَوْلِيَآءَ : دوست بَعْضُهُمْ : ان میں سے بعض اَوْلِيَآءُ : دوست بَعْضٍ : بعض (دوسرے) وَمَنْ : اور جو يَّتَوَلَّهُمْ : ان سے دوستی رکھے گا مِّنْكُمْ : تم میں سے فَاِنَّهٗ : تو بیشک وہ مِنْهُمْ : ان سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : لوگ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم
اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا بیشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا
یا ایہا الذین امنوا لا تتخذوا والیہود والنصاری اولیآء اے ایمان والو یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست نہ بناؤ یعنی ان پر اعتماد نہ رکھو اور دوستوں کی ایسی معاشرت ان سے نہ رکھو۔ (1) [ قاضی عیاض کی روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کو حکم دیا کہ آپ نے جو کچھ لیا دیا ہو ایک چمڑے پر (لکھ کر) پیش کیجئے ‘ حضرت ابوموسیٰ کا کاتب عیسائی تھا ‘ کاتب نے حساب پیش کیا۔ حضرت عمر ؓ نے تعجب کیا اور فرمایا یہ بڑی یادداشت رکھتا ہے ‘ اچھا ہمارا ایک خط شام سے آیا ہے تم اس کو مسجد میں چل کر پڑھ دو ‘ حضرت ابو موسیٰ نے فرمایا : یہ مسجد میں نہیں جاسکتا ‘ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کیا یہ جنب ہے ؟ حضرت ابو موسیٰ نے کہا : نہیں عیسائی ہے ‘ حضرت ابو موسیٰ کا بیان ہے کہ یہ سنتے ہی حضرت عمر ؓ نے میرے کچوکا مارا اور میری ران پر ضرب رسید کی اور فرمایا : اس کو نکال دو پھر آیت : لا تتخذوا والیہود والنصاری اولیائ تلاوت فرمائی۔ اخرجہ ابن ابی حاتم ‘ والبیہقی فی شعب الایمان۔] بعضہم اولیاء بعض وہ تو باہم ایک دوسرے کے دوست ہیں یعنی چونکہ سب کا مذہب ایک ہے اس لئے آپس کی موالات اور تمہاری مخالفت و ضرر رسانی پر سب متفق ہیں ‘ اس آیت میں دوستی کی ممانعت کی وجہ بیان فرمائی ہے۔ ومن یتولہم منکم فانہ منہم اور تم میں سے جو ان کا دوست ہے وہ حقیقت میں انہی میں سے ہے۔ یعنی عبداللہ بن ابی جو ان کا دوست ہے حقیقت میں کافر و منافق ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ابوالحباب تم کو یہود کی دوستی سے عبادۃ بن صامت پر جو کچھ ترجیح ملے گی وہ تمہارے لئے ہوگی عبادہ کے لئے نہیں ہوگی۔ ابن ابی نے کہا تو میں اس کو قبول بھی کرلوں گا۔ یہ بھی جائز ہے کہ فانہ منہم سے مجازی معنی (یعنی فاسق ہونا) مراد ہو مطلب یہ ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں سے جو مسلمان دوستی کرے گا وہ فاسق ہوگا اور فاسق کافر کے مشابہ ہوتا ہے ‘ فانہ منہمکہہ کر کلام میں زور پیدا کیا تاکہ ان کافروں سے اجتناب رکھنے کے حکم کی قوت کا اظہار ہوجائے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو مسلمان مشرکوں کے ساتھ رہتا ہو میں اس کا ذمہ دار نہیں (کہ لڑائی کے وقت مسلمانوں کا لشکر اس کو کافر سمجھ کر قتل کر دے) طبرانی نے قابل وثوق سند سے حضرت خالد بن ولید کی روایت سے اور ابو داؤد ‘ ترمذی اور نسائی نے حضرت جریر بن عبداللہ کی روایت سے اس کو نقل کیا ہے۔ ان اللہ لا یہدی القوم الظلمین بلاشبہ اللہ ظالموں کو ہدایت یاب نہیں کرتا یعنی ان لوگوں کو ہدایت یاب نہیں کرتا جو کافروں سے دوستی کر کے خود اپنے اوپر بھی ظلم کرتے ہیں اور مسلمانوں کے دشمنوں سے تعاون کر کے مسلمانوں پر ستم بھی کرتے ہیں۔
Top