Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 54
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰهُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤ١ۙ اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ١٘ یُجَاهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآئِمٍ١ؕ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) مَنْ : جو يَّرْتَدَّ : پھرے گا مِنْكُمْ : تم سے عَنْ : سے دِيْنِهٖ : اپنا دین فَسَوْفَ : تو عنقریب يَاْتِي اللّٰهُ : لائے گا اللہ بِقَوْمٍ : ایسی قوم يُّحِبُّهُمْ : وہ انہیں محبوب رکھتا ہے وَيُحِبُّوْنَهٗٓ : اور وہ اسے محبوب رکھتے ہیں اَذِلَّةٍ : نرم دل عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) اَعِزَّةٍ : زبردست عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) يُجَاهِدُوْنَ : جہاد کرتے ہیں فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَ : اور لَا يَخَافُوْنَ : نہیں ڈرتے لَوْمَة : ملامت لَآئِمٍ : کوئی ملامت کرنیوالا ذٰلِكَ : یہ فَضْلُ : فضل اللّٰهِ : اللہ يُؤْتِيْهِ : وہ دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جسے چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ وَاسِعٌ : وسعت والا عَلِيْمٌ : علم والا
اے ایمان والو اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو خدا ایسے لوگ پیدا کر دے گا جن کو وہ دوست رکھے اور جسے وہ دوست رکھیں اور جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں خدا کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والی کی ملامت سے نہ ڈریں یہ خدا کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور الله بڑی کشائش والا اور جاننے والا ہے
یا ایہا الذین امنوا من یرتد منہم عن دینہ اے اہل ایمان (1) [ قتادہ نے بیان کیا اللہ کو معلوم تھا کہ آئندہ کچھ لوگ مرتد ہوجائیں گے اس لئے اس آیت میں اس نے اطلاع دے دی ‘ چناچہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوتے ہی عام عرب اسلام سے پھرگئے صرف تین مسجدوں والے مرتد نہیں ہوئے ‘ مدینہ والے ‘ مکہ والے ‘ اور جو اثاد والے قبیلۂ عبدالقیس کے لوگ ‘ مرتدوں نے کہا ہم نماز پڑھیں گے زکوٰۃ نہیں دیں گے ہمارا مال چھینا نہیں جاسکتا ‘ حضرت ابوبکر سے اس سلسلہ میں گفتگو کی گئی کہ اس وقت آپ چشم پوشی کریں اور عرض کیا گیا کہ آئندہ جب ان میں دینی سمجھ آجائے گی تو زکوٰۃ دے دیں گے ‘ حضرت ابوبکر نے فرمایا جن چیزوں کو اللہ نے جمع کیا ہے میں ان میں تفریق نہیں کروں گا اگر اللہ اور اس کے رسول کی مقرر کردہ ایک رسی کے دینے سے بھی یہ انکار کریں گے تو میں ان سے جہاد کروں گا چناچہ اللہ نے آپ کے ساتھ بھی کچھ جماعتیں کردیں یہاں تک کہ مرتدوں سے جنگ ہوئی ان کو قتل کیا گیا آخر ماعون یعنی زکوٰۃ ادا کرنے کا انہوں نے اقرار کیا ‘ قتادہ نے کہا ہم آپس میں کہتے تھے کہ اس آیت کا نزول حضرت ابوبکر اور آپ کے ساتھیوں کے حق میں ہوا تھا ‘ یعنی آیت : فسوف یاتیہم اللّٰہ (یاتیہم کی جگہ یاتی قرآن مجید میں ہے ‘ ہم کا لفظ شاید زیادت کتابت کا نتیجہ ہو اور ممکن ہے حضرت قتادہ نے یونہی فرمایا ہو) یقوم یحبتہم ویحبونہا خرجہ عبد بن حمید و ابن جریر و ابن المنذر والشیخ والبیہقی وابن عساکر۔ صرف حضرت ابوبکر ؓ کے زمانہ میں مرتدوں سے جہاد کیا گیا ‘ صحابہ کی رائے شروع میں اس کے خلاف تھی اور حضرت ابوبکر کے خلاف انہوں نے ناگواری کا اظہار بھی کیا تھا لیکن آپ نے کسی کی ناگواری کی پرواہ نہیں کی ‘ آخر صحابہ نے بھی آپ کی رائے کی تعریف کی ‘ حضرت ابوموسیٰ اشعری کا بیان ہے میں نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آیت فسوف یاتی اللّٰہ بقوہم یحبہم ویحبونہ پڑھی تو حضور ﷺ نے فرمایا : یہ لوگ اہل یمن میں سے ہیں اور اہل یمن میں سے بھی بنی کندہ میں سے اور بنی کندہ میں سے بھی قبیلۂ سکون میں سے اور سکون میں سے قبیلہ نجیب میں سے۔ قاسم بن محمد کا بیان ہے میں حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے مجھے مرحبا کہا پھر آیت من یرتد منکن عن دینہ فسوف یاتی۔۔ تلاوت کی پھر میرے مونڈھے پر ہاتھ مار کر تین بار فرمایا میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اے اہل یمن وہ (محب محبوب قوم) تم میں سے ہوگی۔[ اخرجہ البخاری فی تاریخہ ] میں کہتا ہوں حضرت ابوبکر کے لشکر نے اہل یمن کی مدد سے مرتدوں سے جہاد کیا تھا (لہٰذا دونوں روایتیں صحیح ہیں)] تم میں سے جو اپنے دین اسلام سے (کفر کی جانب) پھر جائے گا ‘ حسن بصری نے فرمایا اللہ کو معلوم تھا کہ رسول اللہ ﷺ : کی وفات کے بعد کچھ لوگ اسلام سے پھرجائیں گے ‘ اس لئے اس نے پہلے سے خبر دے دی کہ ایسا ہوگا۔ فسوف یاتی اللہ بقوم یحبہم ویحبونہ تو اللہ آئندہ ایسے لوگ پیدا کر دے گا جن سے اللہ کو محبت ہوگی اور ان کو اللہ سے محبت ہوگی یعنی مسلمانوں کی طرف سے مدافعت کے لئے تم میں سے ہی اللہ ایسے لوگوں کو پیدا کر دے گا جو اللہ کے محب بھی ہوں گے اور محبوب بھی۔ اس قوم سے مراد کون سی قوم ہے اس کے متعلق اقوال میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک حضرت علی ؓ مراد ہیں۔ حسن ‘ ضحاک اور قتادہ کے نزدیک حضرت ابوبکر اور آپ کے ساتھی مراد ہیں جنہوں نے مرتدوں اور زکوٰۃ دینے سے انکار کرنے والوں سے جہاد کیا تھا۔ اس کا واقعہ یہ ہوا کہ رسول اللہ ﷺ : کی وفات ہوتے ہی سوائے اہل مکہ اور اہل مدینہ اور بحرین کے قبیلہ عبدالقیس کے عام عرب مرتد ہوگئے اور بعض نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا حضرت ابوبکر نے ان سے جنگ کرنے کا ارادہ کیا مگر صحابۂ کرام نے اس ارادہ کو پسند نہیں کیا حضرت عمر ؓ نے فرمایا (یہ لوگ کلمہ گو ہیں) آپ ان سے کس طرح جہاد کرسکتے ہیں ‘ رسول اللہ ﷺ نے تو فرمایا ہے کہ مجھے لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم اس وقت تک ہے ‘ جب تک وہ لا الہ الا اللہ کے قائل نہ ہوجائیں جو لا الہ الا اللہ کا قائل ہوگیا اس نے اپنی جان و مال کو مجھ سے محفوظ کرلیا اور اس کا (اندرونی) محاسبہ اللہ کا کام ہے ہاں کسی حق کی وجہ سے (اس کلمہ گو کے جان و مال سے) تعرض کیا جاسکتا ہے ‘ حضرت ابوبکر نے فرمایا جو لوگ نماز اور زکوٰۃ ( کی فرضیت) میں فرق پیدا کرتے ہیں خدا کی قسم میں ان سے جہاد کروں گا کیونکہ (جس طرح نماز جسمانی عبادت ہے اسی طرح) زکوٰۃ مالی فرض ہے ‘ خدا کی قسم اگر یہ لوگ بکری کا بچہ بھی رسول اللہ ﷺ : کو دیتے تھے اور مجھے دینے سے انکار کریں گے تو میں اس پر ان سے جنگ کروں گا۔ حضرت انس کا بیان ہے کہ اداء زکوٰۃ سے انکار کرنے والوں سے جنگ کرنا صحابہ کو (شروع میں) پسند نہ تھا ‘ ان کا قول تھا کہ یہ لوگ تو اہل قبلہ ہیں اور اہل قبلہ سے جہاد نہیں کیا جاسکتا لیکن جب ابوبکر گردن میں تلوار لٹکائے تنہا ہی نکل کھڑے ہوئے تو صحابہ کو بھی نکلے بغیر کوئی چارہ نہیں رہا۔ حضرت ابن مسعود کا بیان ہے ہم کو شروع میں حضرت ابوبکر کا یہ فیصلہ پسند نہ تھا لیکن آخر میں ہم نے آپ کے خیال کی تعریف کی ‘ ابوبکر بن عیاش کا بیان ہے میں نے ابو حفص کو یہ کہتے سنا کہ انبیاء کے بعد حضرت ابوبکر سے افضل کوئی شخص پیدا نہیں ہوا ‘ رسول اللہ ﷺ کے بعد آپ ہی مرتدوں سے جنگ کرنے کے لئے کھڑے ہوگئے ‘ رسول اللہ ﷺ : کی زندگی ہی میں تین گروہ مرتد ہوگئے تھے (1) بنی مذحج جن کا سردار ‘ ذوالحمار ‘ عبہلہ بن کعب عنسی تھا اس کا لقب اسود تھا یہ ایک شعبہ باز کاہن تھا یمن میں اس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور بلاد یمن پر قابض ہوگیا تھا رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل (گورنر یمن) اور آپ کے ساتھی مسلمانوں کو لکھا کہ لوگوں کو مضبوطی کے ساتھ دین پر قائم رہنے کی ترغیب دیتے رہیں اور اسود سے لڑنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں ‘ چناچہ فیروز دیلمی نے (گھر میں گھس کر) اسود کو اس کے بستر پر ہی قتل کردیا۔ حضرت ابن عمر کا بیان ہے کہ قتل کی رات کو ہی آسمان سے رسول اللہ ﷺ کو اسود کے قتل ہونے کی خبر مل گئی اور حضور ﷺ نے فرما دیاک آج رات اسود کو قتل کردیا گیا اور مبارک شخص نے اس کو قتل کیا ہے عرض کیا گیا وہ کون ہے فرمایا فیروز ‘ فیروز کامیاب ہوگیا۔ اس بشارت کو سنانے کے دوسرے روز حضور کی وفات ہوگئی اور مدینہ میں اسود کے قتل کی خبر (باضابطہ) ماہ ربیع الاوّل کے آخر میں پہنچی جبکہ اسامہ ؓ جہاد کے لئے جا چکے تھے سب سے اوّل حضرت ابوبکر کے پاس اسی فتح کی اطلاع آئی۔ (2) بنی حنیفہ جن کا سردار مسیلمہ کذاب تھا ‘ رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں ہی 10 ھ کے آخر میں اس نے نبوت کا دعویٰ کردیا تھا ‘ اسکا خیال تھا کہ محمد کے ساتھ مجھے بھی نبوت میں شریک کردیا گیا ہے چناچہ رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں اس نے مندرجہ ذیل خط بھی بھیجا تھا۔ مسیلمہ رسول خدا کی طرف سے محمد رسول اللہ کے نام۔ اما بعد ‘ یہ زمین آدھی میری اور آدھی آپ کی ہے ‘ یہ خط دو آدمیوں کے ہاتھ حضور ﷺ کی خدمت میں بھیجا ‘ حضور ﷺ نے قاصدوں سے فرمایا اگر قاصدوں کو قتل نہ کرنے کا حکم نہ ہوتا تو میں تم دونوں کی گردنیں مار دیتا ‘ پھر آپ ﷺ نے جواب لکھوایا۔ محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے مسیلمہ کذاب کے نام۔ اما بعد ‘ ساری زمین اللہ کی ہے اپنے بندوں میں سے وہ جس کو چاہتا ہے اس کا مالک بناتا ہے اور اچھا انجام پرہیزگاروں کا ہوتا ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ بیمار ہوگئے اور آپ کی وفات ہوگئی تو ابوبکر ؓ نے کثیر لشکر کے ساتھ خالد بن ولید کو مسیلمہ سے لڑنے بھیجا۔ آخر مطعم بن عدی کے غلام وحشی کے ہاتھوں سے مسیلمہ مارا گیا وحشی وہی شخص تھا جس نے حمزہ بن عبدالمطلب کو شہید کیا تھا اور مسیلمہ کو قتل کرنے کے بعد کہا کرتا تھا میں نے مسلمان ہونے سے پہلے سب سے بہتر آدمی کو شہید کیا تھا اور مسلمان ہونے کے بعد بدترین آدمی کو قتل کردیا۔ (3) بنی اسد ان کا سردار طلیحہ بن خویلد تھا ‘ یہ مدعیان نبوت میں سب سے آخری شخص تھا جس نے مرتد ہو کر نبوت کا دعویٰ رسول اللہ ﷺ کی زندگی ہی میں کردیا تھا لیکن اس سے جہاد حضور ﷺ کی وفات کے بعد کیا گیا۔ حضرت ابوبکر نے خالد بن ولید کو اس کے مقابلہ کے لئے بھیجا حضرت خالد نے شدید جنگ کے بعد اس کو شکست دی یہ بھاگ کر شام کو چلا گیا پھر کچھ مدت کے بعد دوبارہ مسلمان ہوگیا اور اس کا اسلام خلوص کے ساتھ رہا۔ رسول اللہ ﷺ : کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت میں بہت لوگ مرتد ہوگئے تھے جن کو ہم سات فرقے کہہ سکتے ہیں۔ 1) بنی فزارہ۔ یہ عیینہ بن حصین کا قبیلہ تھا۔ 2) بنی غطفان۔ یہ قرہ بن سلمہ قشیری کا قبیلہ تھا۔ 3) بنی سلیم۔ یہ فجأۃ بن عبد یا لیل کا قبیلہ تھا۔ 4) بنی یربوع۔ یہ مالک بن نویرہ کا کنبہ تھا۔ 5) خاندان بنی تمیم کا کچھ حصہ ‘ یہ قبیلہ شجاج بنت منذر زوجۂ مسیلمہ کذاب کا تھا ‘ شجاج نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا تھا لیکن آخر میں مسلمان ہوگئی تھی۔ 6) بنی کندہ یہ اشعث بن قیس کا خاندان تھا۔ 7) بنی بکر بن وائل یہ بحرین کے باشندے اور حطیم کے قبیلہ والے تھے آخرکار حضرت ابوبکر ؓ کے ہاتھوں اللہ نے ان سب کا کام تمام کرا دیا اور اپنے دین کو فتحیاب کردیا۔ حضرت عائشہ ؓ : کا بیان ہے کہ حضور ﷺ : کی وفات ہوتے ہی عرب مرتد ہوگئے اور نفاق ان کے دلوں میں جم گیا اور میرے باپ پر وہ مشکلات پڑیں کہ اگر مضبوط پہاڑوں پر پڑتیں تو ان کا بھی چورہ کر دیتیں۔ حضرت عمر ؓ کی خلافت میں جبلہ بن ایہم کا قبیلۂ غسان مرتد ہوگیا تھا یہ ارتداد اس وقت ہوا جب (شاہ غسان) جبلہ بن ایہم سے (ایک غریب آدمی) کا بدلہ لینے کا حضرت عمر ؓ نے حکم دیا تھا اور وہ عیسائی ہو کر ملک شام کو چلا گیا تھا ‘ بعض علماء کے نزدیک قوم محب و محبوب سے مراد اشعری قبیلہ کے لوگ ہیں۔ عیاض بن غنم کا بیان ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ابو موسیٰ اشعری کی طرف اشارہ کر کے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس کی قوم والے ‘ رواہ ابن جریر فی السنن والطبرانی والحاکم ‘ اشعری قبیلہ کے لوگ یمن کے باشندہ تھے۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمہارے پاس یمن والے آئے ہیں جن کے دل بڑے کمزور اور نرم ہیں۔ ایمان (تو) یمن کا ہے اور حکمت (بھی) یمن کی ہے متفق علیہ ‘ کلبی نے کہا یہ یمن کے مختلف قبائل والے تھے ‘ قبیلۂ نخع کے دو ہزار افراد بنی کندہ اور بحیلہ کے پانچ ہزار اور مختلف قبائل کے تین ہزار ‘ ان سب نے حضرت عمر ؓ کی خلافت میں قادسیہ کی جنگ میں اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ اذلۃ علی المؤمنین مسلمانوں پر مہربان ‘ اذلۃ ذلیل کی جمع ہے ماضی ذل مضارع یذل اور مصدر ذُلٌ ذِلَّۃٌ ذُلَالَۃَ ذَلاَلۃ اور مَذَلَّۃٌ ہے ذل بےعزت ہوگیا آسان ہوگیا ‘ کذا فی القاموس۔ ذلت اگر خود اپنی طرف سے بطور تواضع ہو تو قابل تعریف ہے اللہ نے فرمایا ہے واخفض لہما جناح الذل من الرحمۃ ‘ یعنی ماں باپ کے لئے عاجزی کے بازو بچھا دو ‘ اگر کسی دوسرے کی طرف سے کسی کی ذلت ہو تو یہ عذاب ہے ‘ اللہ نے فرمایا ہے ترہقہم ذلۃ۔ ضربت علیہم الذلۃ والمسکنۃ۔ ذلت کے مقابل عزت کا لفظ ہے یعنی غلبہ ‘ عزیز وہ شخص جو غالب ہو مغلوب نہ ہو ‘ عزت اگر خود ساختہ ہو تو قابل مذمت ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے ہل الذین کفروا فی عزۃ وشقاق کبھی مجازاً عزت بمعنی حمیت بھی مستعمل ہے ‘ اللہ نے فرمایا ہے اخذتہ العزۃ بالاثم فحسبنہ جہنم اگر عزت اللہ کی طرف سے ہو تو یہ نعمت اور کمال ہے ‘ اللہ نے فرمایا ہے وللّٰہ العزۃ ولرسولہ وللمؤمنین دوسری آیت میں آیا ہے من کان یرید العزۃ فللّٰہ العزۃ جمیعا نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے جو عزت اللہ کی طرف سے نہ ہو وہ ذلت ہے۔ بیضاوی نے لکھا ہے اذلۃ ذلیل کی جمع ہے ذلول کی جمع نہیں ہے ذلول کی جمع ہے ذلل ہے لیکن قاموس میں ہے ذلیل کی جمع ذلال اور اذلاء اور اذلۃ ہے اور ذلول کی جمع ذلل اور اذلۃ ہے پس اذلۃ ذلیل اور ذلول دونوں کی جمع ہے۔ میں کہتا ہوں اگر اذلۃ کو ذلول کی جمع قرار دی جائے تو اس کا معنی ہوگا آسان ‘ سہل ‘ جو صعب (دشوار) کی ضد ہے ‘ دونوں لفظوں (ذلیل و ذلول) کا معنی قریب قریب ہے۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ وہ تواضع کرنے والے نرم خو ‘ مہربان اور آپس میں جھکاؤ رکھنے والے ہیں۔ قیاس لغوی کا تقاضا تھا کہ علی المؤمنین کی جگہ للمؤمنین ہوتا لیکن بجائے لام کے علیٰ ذکر کیا گیا کیونکہ الکافرین کے ساتھ بھی علیٰ آیا ہے مشاکلت کا تقاضا تھا کہ المؤمنین کے ساتھ بھی علی ذکر کیا جائے پھر اس امر پر تنبیہ کرنا بھی مقصود ہے کہ باوجودیکہ دوسرے مؤمنوں پر ان کو برتری حاصل ہے اور ان کا مرتبہ اونچا ہے لیکن مؤمنوں کے سامنے وہ جھکے رہتے ہیں ‘ یا یوں کہا جائے کہ لفظ ذلت اپنے اندر شفقت اور مہربانی کا مفہوم رکھتا ہے اور عطف (بمعنی مہربانی) کے بعد علیٰ آتا ہے اس لئے اذلۃ کے بعد بھی علیٰ کو ذکر کیا ‘ یا یوں کہا جائے کہ اذلۃ کا لفظ اعزۃ کے مقابل ذکر کیا گیا ہے گویا اذلۃ کا معنی ہے غیر اعزۃ۔ اعزۃ علی الکافرین کافروں کے مقابلہ میں طاقتور۔ یعنی کافروں کے مقابلہ میں طاقتور ہیں ‘ عاجزی و کمزوری ظاہر نہیں کرتے۔ اسی مضمون کی دوسری آیت بھی آئی ہے فرمایا ہے اشدء علی الکفار ورحماء بینہم۔ یجاہدون فی سبیل اللہ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے۔ ولا یخافون لومۃ لآئم اور (اللہ کے احکام کی تعمیل کرنے میں) کسی برا کہنے والے کے برا کہنے سے خوف زدہ نہیں ہوں گے (کسی ملامت گر کی ملامت کا اندیشہ نہیں کریں گے) یہ یجاہدون کی ضمیر سے حال ہے ‘ اس صورت میں مطلب اس طرح ہوگا کہ وہ کافروں کی ملامت کا اندیشہ کئے بغیر جہاد کریں گے ‘ منافقوں کی حالت اس کے خلاف تھی۔ وہ مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ یا تو مال غنیمت کی طمع میں نکلتے تھے یا اس خیال سے نکلتے تھے کہ نہ نکلنے کی صورت میں ان کے نفاق کا اظہار ہوجائے گا لیکن اس کے ساتھ یہودی دوستوں کے برا کہنے کا اندیشہ لگا رہتا تھا اس لئے کوئی ایسا کام نہ کرتے تھے جس پر یہودی ان کو آئندہ ملامت کرسکیں ‘ یا لایخافون کا عطف یجاہدون پر ہے یعنی ان کے اندر دو وصف پائے جاتے ہیں ایک تو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں دوسرے دین میں بڑے ٹھوس ہیں دینی کام میں ان کو کسی کے برا کہنے کا اندیشہ نہیں ‘ حضرت عبادہ بن صامت کا بیان ہے ہم نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت ان شرطوں پر کی کہ حکم سنیں گے اور مانیں گے اور جہاں بھی ہوں گے حق بات کہیں گے اللہ کے معاملہ میں کسی برا کہنے والے کے برا کہنے کا اندیشہ نہیں کریں گے ‘ متفق علیہ۔ لومۃ ایک بار ملامت کرنا۔ دونوں کو نکرہ لانے سے اس طرح اشارہ ہے کہ کسی ملامت گر کی کسی ایک ملامت کی بھی ان کو پرواہ نہ ہوگی۔ ذلک یہ ‘ یعنی اللہ کا محب و محبوب ہونا مسلمانوں کے سامنے بچھ جانا ‘ کافروں کے مقابلہ میں اظہار قوت کرنا ‘ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا کسی کی ملامت کی پرواہ نہ کرنا اور قوم کے مرتد ہونے اور مسلمانوں کی ساکھ کم ہوجانے کے باوجود کسی کے برا کہنے سے نہ ڈرنا۔ فضل اللہ (اُن پر) اللہ کی مہربانی ہے اور اس کی دین ہے۔ یوتیہ من یشآء اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو دینا چاہتا ہے دیتا ہے پس جس کے اندر اوصاف مذکورہ میں سے کوئی صفت ہو اس کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے برخود غلط نہ ہوجانا چاہئے کیونکہ یہ محض اللہ کی عنایت ہے خود آوردہ کچھ نہیں۔ واللہ واسع اور اللہ بڑی وسعت والا ہے ‘ صوفیہ نے کہا اس کی وسعت بےکیف ہے ‘ تمام مظاہر میں اسی کے اوصاف کمالیہ پر تو انداز ہیں۔ یا اللہ کے وسیع ہونے کا معنی ہے اس کے فضل وقدرت کا وسیع ہونا۔ علیم وہ خوب جانتا ہے کہ اپنی قدرت کا استعمال کہاں کہاں کرے تقاضاء حکمت کے خلاف نہیں کرتا (یعنی اس کی قدرت اگرچہ نامحدود ہے مگر استعمال قدرت ‘ حکمت کے تحت ہے بغیر حکمت کے قدرت کا استعمال نہیں کرتا)
Top