Tafseer-e-Mazhari - An-Naba : 24
لَا یَذُوْقُوْنَ فِیْهَا بَرْدًا وَّ لَا شَرَابًاۙ
لَا يَذُوْقُوْنَ : نہ وہ چکھیں گے فِيْهَا : اس میں بَرْدًا : کوئی ٹھنڈک وَّلَا شَرَابًا : اور نہ پینے کی چیز
وہاں نہ ٹھنڈک کا مزہ چکھیں گے۔ نہ (کچھ) پینا (نصیب ہو گا)
لا یذوقون فیھا بردا ولا شرابا . یہ لابثین سے حال یا احقابًا کی صفت ہے یا احقابًا ‘ لا یذوقرن کا مفعول فیہ (زمانۂ فعل) ہے یعنی اس حالت پر وہ دوزخ میں رہیں گے اور لاتعداد برسوں تک سوائے حمیم اور غساق کے اور کچھ نہ چکھیں گے گویا عدم فروق کے ساتھ ان کی دوزخ کے اندر سکونت حقب در حقب ہوں گی اور ان احقاب کے گزرنے کے بعد کیا ہوگا ‘ تو شاید وہ مزید شدید ترین عذاب میں احقاب عدم ذوق گزرنے کے بعد مبتلا کردیئے جائیں۔ ظاہر یہ ہے کہ لا یذوقون حال مرادف ہے۔ لابثین حال اوّل ہے اور یہ اس سے حال ہے۔ میرے نزدیک صحیح توجیہ یہ ہے کہ مذکورہ شبہ کا مبنی صرف یہ ہے کہ الطاغین سے صرف کفار مراد لیے گئے ہیں۔ بدعتیوں کو اس لفظ کے تحت داخل نہیں کیا گیا ‘ اس لیے شبہ کو دفع کرنے کے لیے اتنی دور از کار توجیہات کرنی پڑیں۔ ہم ” الطاغین “ کے لفظ کو اہل بدعت پر محمول کرتے ہیں (جن کے عقائد پر کفر لازم آتا ہے وہ خود مدعی اسلام ہیں ‘ اس لیے ان کا حکم کافروں جیسا نہیں ‘ نہ ان کا عذاب دائمی ہے بلکہ ان کے عذاب کی مدت بہت لمبی ہے جس کی تعبیر لفظ احقابًا سے کی ہے) اب آیات میں کوئی تعارض باقی نہیں رہتا (آیات محکمات میں کافروں کے لیے دوامی عذاب کی صراحت ہے اور اس آیت میں اہل بدعت کے لیے عذاب طویل کی نص) میرے اس قول کی تائید بزار کی نقل کردہ روایت سے بھی ہوتی ہے جس کے راوی حضرت ابن عمر ؓ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : خدا کی قسم ! کوئی بھی دوزخ سے نہ نکلے گا تاوقتیکہ احقاب تک اس میں نہ رہ چکا ہو۔ حقب کچھ اوپر اسّی سال کا ہوگا اور ہر سال تمہاری گنتی کے 360 دن کا۔ یہ حدیث بتارہی ہے کہ مدت مذکور گزرنے کے بعد طاغین دوزخ سے نکل آئیں گے۔
Top