Tafseer-e-Mazhari - An-Naba : 23
لّٰبِثِیْنَ فِیْهَاۤ اَحْقَابًاۚ
لّٰبِثِيْنَ : ہمیشہ رہنے والے ہیں فِيْهَآ : اس میں اَحْقَابًا : مدتوں
اس میں وہ مدتوں پڑے رہیں گے
لبثین فیھا احقابا . طاغی دوزخ میں صدیوں تک رہیں گے۔ احقاب ‘ حقب کی جمع ہے۔ ایک حقب اسّی برس کا ہوگا اور ہر سال بارہ مہینہ کا اور ہر مہینہ تیس دن کا اور ہر دن (اس دنیا کے) ہزار برس کا۔ بقول بغوی یہ تفصیل حضرت علی ؓ سے اور بقول ہناد حضرت ابوہریرہ سے منقول ہے۔ مجاہد نے کہا : الاحقاب 43 حقبہ کا۔ ہر حقبہ ستّر خریف کا ‘ ہر خریف سات سو سال کا ‘ ہر سال 360 دن کا اور ہر دن (دنیا کے) ہزار برس کا۔ مقاتل بن حبان نے کہا : ایک حقب سترہ ہزار برس کا ہوگا۔ ایک شبہ احقاب کی مدت کچھ بھی بیان کی جائے۔ بہرحال متناہی ہوگی اور آیات محکمات بتارہی ہیں کہ کافر ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ اللہ نے فرمایا ہے : و فی العذاب ھم خالدون۔ اسی پر اجماع بھی ہے۔ سدی نے مرہ بن عبداللہ کا قول نقل کیا ہے کہ اگر دوزخیوں کو معلوم ہوجائے کہ ان کو دنیا کے سنگریزوں کے شمار کے برابر دوزخ میں رہنا ہے تو ان کو اس سے خوشی ہوگی اور اگر جنتیوں کو معلوم ہوجائے کہ ان کو دنیا کے سنگریزوں کے شمار کے برابر جنت میں رہنا ہے تو اس سے ان کو رنج ہوگا (پس یہ حدیث بھی دلالت کر رہی ہے کہ دوزخیوں کے لیے دوزخ ابدی اور لازوال ہے) ۔ ازالہ اہل تفسیر نے مذکورہ شبہ کو دور کرنے کے لیے ان آیات کی تاویل کی ہے۔ کسی نے کہا : یہ آیت منسوخ ہے اس کی ناسخ آیت فلن نزیدکم الاّ عذاباً ہے کیو کہ زیادتی عذاب کی خبر سے عذاب کی تناہی ختم ہوگئی اور خلود کا مفہوم حاصل ہوگیا۔ میں کہتا ہوں آیت : ان جھنّم کانت .... خبر ہے اور خبر میں نسخ کا احتمال ہی نہیں ہوتا (حکم منسوخ ہوتا ہے ‘ خبر منسوخ نہیں ہوتی) حسن بصری (رح) نے یہ تاویل کی کہ اللہ نے دوزخیوں کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں کی بلکہ لٰبثین فیھا احقابًا فرمایا اور احقاب کا سلسلہ غیر متناہی ہے) پس خدا کی قسم ! جب ایک حقب گزر جائے گا تو دوسرا حقب آجائے گا اور یہ سلسلہ ابد تک جاری رہے گا۔ احقاب کی کوئی منقطعہ مدت نہ ہوگی۔ اسی قول کی روشنی میں بیضاوی نے احقاباً کی تشریح میں دھور امتتابعۃ کہا ہے اور صراحت کی ہے کہ اس آیت میں دوزخ سے نکل آنے پر کوئی (قولی) دلالت نہیں۔ اگرچہ بطور مفہوم انقطاع مدت سمجھا جاتا ہے مگر منطوق (صریحی) عدم انقطاع پر دلالت کرتا ہے (جیسے خالدین فیھا ابدًا فرمایا) اور مفہوم منطوق کا مزاحم نہیں بن سکتا۔ (منطوق کے مقابلہ میں مفہوم محض ناقابل اعتبار ہے) میں کہتا ہوں بلاشبہ مفہوم ‘ منطوق کا مزاحم نہیں ہوسکتا ‘ اسی لیے ہم کافروں کے لیے خلود عذاب کے قائل ہیں اور اسی بناء پر اجماع بھی اسی پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ آیت : ان جھنّم کانت ..... کی تاویل کرنے کی ضرورت پڑی۔ مگر اس کی یہ تاویل تو بڑی کمزور ہے کہ احقاب سے مراد غیر متناہی احقاب اور پیہم غیر منقطع مدتیں ہیں کیونکہ احقاب کا لفظ جب اسی لیے لایا گیا ہے کہ خلاف مراد کا وہم جاتا رہے اور کوئی شخص عدم خلود نہ سمجھنے لگے تو یہ فائدہ لفظ ایّامًا سے بھی حاصل ہوسکتا تھا۔ جب کہ ایّامًا سے غیر متناہی ایّام مراد لیے جائیں (جیسے احقاب غیر متناہی خلود پر دلالت کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایام غیر متناہی بھی عدم انقطاع مدت پر دلالت کرتے ہیں) اگر لا لٰبثین فیھا ایّامًا کہا جاتا تو کبھی بھی ذہن کا تبادر مفہوم خلود کی جانب نہیں ہوتا بلکہ مفہوم خروج کی جانب ہوتا ہے ‘ پھر کوئی وجہ نہیں کہ احقابًا کہنے سے مفہوم خروج کی جانب ذہن کا تبادر نہ ہو اور خلود کی جانب ہو۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ احقابًا ‘ حقبٌ کی جمع ہے اور (مفعول فیہ نہیں بلکہ) حال ہے۔ حقب الرجل۔ اس آدمی کا رزق رک گیا (وہ رزق سے محروم ہوگیا) حقب العالمُ ۔ دنیا میں بارش نہیں ہوئی۔ اس وقت یہ مطلب ہوگا کہ طاغین دوزخ کے اندر ایسی حالت میں رہیں گے کہ کچھ (کھانے کی چیز) کھانے کو نہیں ملے گی۔ آئندہ آیت : لا یذوقون فیھا بردًا ولا شرابًا اسی کی تشریح ہے۔ میں کہتا ہوں یہ تفسیر ان آثار کے خلاف ہے جو علی ؓ اور دوسرے اکابر سے مروی ہیں اور چونکہ تشریح مراد میں رائے کو کوئی دخل نہیں اسلئے اس سلسلہ میں جو اقوال صحابہ ؓ مروی ہیں وہ حدیث مرفوع کے حکم میں ہیں (اور یہ کہنا پڑیگا کہ ضرور ان صحابہ ؓ نے حضور ﷺ سے ایسا ہی سنا تھا)
Top