Mazhar-ul-Quran - Al-Hashr : 12
لَئِنْ اُخْرِجُوْا لَا یَخْرُجُوْنَ مَعَهُمْ١ۚ وَ لَئِنْ قُوْتِلُوْا لَا یَنْصُرُوْنَهُمْ١ۚ وَ لَئِنْ نَّصَرُوْهُمْ لَیُوَلُّنَّ الْاَدْبَارَ١۫ ثُمَّ لَا یُنْصَرُوْنَ
لَئِنْ : اگر اُخْرِجُوْا : وہ جلا وطن کئے گئے لَا : نہ يَخْرُجُوْنَ : وہ نکلیں گے مَعَهُمْ ۚ : ان کے ساتھ وَلَئِنْ : اور اگر قُوْتِلُوْا : ان سے لڑائی ہوئی لَا يَنْصُرُوْنَهُمْ ۚ : وہ ان کی مد د نہ کریں گے وَلَئِنْ : اور اگر نَّصَرُوْهُمْ : وہ ان کی مدد کرینگے لَيُوَلُّنَّ : تو وہ یقیناً پھیریں گے الْاَدْبَارَ ۣ : پیٹھ (جمع) ثُمَّ : پھر لَا يُنْصَرُوْنَ : وہ مدد نہ کئے جائینگے
اگر وہ (یہود) نکالے گئے تو یہ (منافقین) ان کے ساتھ نہ نکلیں گے ، اور اگر ان سے لڑائی ہوئی تو یہ ان کی مدد نہ کریں گے اور اگر یہ ان کی مدد (بھی) کریں تو ضرور پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے اس کے بعد (منافقوں کو) کہیں سے مدد نہ ملے گی۔
خدا کی رضامندی ان کے لیے جو عمل کریں اور صف باندھ کر لڑیں۔ (ف 1) یہ آیتیں بھی بنی نضیر کے قصہ کی ایک حالت کے بیان میں ہیں حاصل اس حالت کا یہ ہے کہ مدینہ کے منافقوں نے بنی نضیر کی تسکین کے طور پر ان سے یہ کہلابھیجا تھا کہ اگر تم جلاوطن کیے گئے تو ہم بھی تمہارے ساتھ مدینہ کی سکونت چھوڑ دیں گے اور تمہاری جلاوطنی کے بعد مدینہ کی سکونت کا کوئی ہم کو مشورہ بھی دے گا تو ہم ہرگز اس کا مشورہ نہ سنیں گے اور اگر تمہاری اور اہل اسلام کی لڑائی ہوئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے اللہ تعالیٰ کو تو ہر ایک کے دل کا حال معلوم ہے اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ ان منافقوں کی جس طرح اور سب باتیں زبانی ہیں ان کے دل میں ان باتوں کا کچھ اثر نہیں ہے اسی طرح یہ باتیں بھی ان کی جھوٹی ہیں نہ یہ مدینہ کی سکونت چھوڑیں گے نہ لڑائی کے وقت مدد کریں گے اللہ سچا ہے اور اللہ کا کلام سچا ہے جیسا کہ اللہ کے کلام میں تھا وہی ہوا کہ بنی نضیر میں جلاوطن ہوگئے اور منافق آرام سے اپنے گھروں میں بیٹھے رہے ، صحیح بخاری ومسلم میں (حدیث آگے ہے) ۔ منافقوں کی نشانیاں اور منافق کسی کے دوست نہیں ہوسکتے۔ عبداللہ بن عمر بن العاص کی حدیث ہے جس میں نبی ﷺ نے فرمایا جھوٹ بولنا اور وعدہ خلافی کرنا منافقوں کی خصلت ہے۔ حدیث کا یہ ٹکڑا آیت کے اس ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے جس میں منافقوں کے جھوٹ بولنے کا ذکر ہے پھر فرمایا کہ اگر یہ منافق سچے ہوتے اور اپنے قول کے موافق مدد کو آتے تو اللہ کو ان کے دل کا حال معلوم ہے کہ ان کے دل میں اہل اسلام کا اس قدر خوف ہے کہ یہ لڑائی کے میدان میں رک نہیں سکتے، فوراوہاں سے بھاگ جاتے ۔ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت جابر ؓ کی حدیث ہے جس میں نبی ﷺ نے فرمایا لشکر اسلام کو اللہ تعالیٰ نے وہ رعب دیا ہے کہ ایک مہینے کے راستے پر بھی دشمن ہو تو اس کے دل میں اس رعب کا اثر پڑجاتا ہے ، منافقوں کے دل پر اہل اسلام کا جس قدر خوف تھا اس کا اندازہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مہینہ بھر کے راستہ پر اثر کرنے والی چیز کا اثر پاس کے پاس کس قدر ہوگا، اسی واسطے فرمایا کہ ان لوگوں کے دل میں اہل اسلام کا خوف اللہ کے خوف سے بھی زیادہ ہے کیونکہ ان کے منافق پنے کے سبب سے خدا کا خوف تو فقط ان کی زبان پر ہے دل میں کچھ بھی نہیں اور لشکر اسلام کا خوف ان کے دل و زبان دونوں پر ہے پھر فرمایا یہ بات اس سبب سے ہے کہ ان لوگوں کو اتنی سمجھ نہیں کہ جس اللہ نے اہل اسلام کے لشکر میں یہ رعب کی تاثیر رکھی ہے نفاق کو چھوڑ کر اصل سے ہی ڈرنا چاہیے، پھر فرمایا کہ ان کی برائی آپس کی لڑائی پر ختم ہے لشکر اسلام کا تو ان کے دل پر وہ رعب چھایا ہوا ہے کہ یہود اور منافقین دونوں مل کر بھی میدان میں لشکراسلام سے نہیں لڑسکتے، ہاں اپنے بچاؤ کے طور پر قلعے یا کسی دیوار کی آڑ میں سے کچھ لڑیں تولڑیں لیکن یہ بھی جب ہوسکتا ہے کہ ان یہود اور منافقین میں یک دلی ہوتی اور یہ ظاہر بات ہے کہ یک دلی اور آپس کا اتحاد تو عقل مندوں میں ہوتا ہے یہ تو ایسے بےعقل لوگ ہیں کہ انہوں نے اپنے دین کے سنبھالنے میں عقل سے کچھ بھی کام نہیں لیا ۔ اس لیے ظاہر میں یہ ایک نظر آتے ہیں ورنہ حقیقت میں یہود اپنے راستہ پر ہیں اور منافق اپنے راستہ پر ہیں اور عقبی سے دونوں غافل۔ ترمذی اور ابن ماجہ کی روایت سے شداد بن اوس کی حدیث ہے کہ جس میں نبی ﷺ نے فرمایا صاحب عقل وہ شخص ہے جو موت سے پہلے موت کے بعد کے لیے کچھ اچھاسامان کرلے، ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے اور یہ حدیث یہود اور منافقین کے کم عقل قرار پانے کی بابت اس آیت کی گویا تفسیر ہے۔
Top