Mualim-ul-Irfan - Al-Furqaan : 4
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفْكُ اِ۟فْتَرٰىهُ وَ اَعَانَهٗ عَلَیْهِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ١ۛۚ فَقَدْ جَآءُوْ ظُلْمًا وَّ زُوْرًاۚۛ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنْ ھٰذَآ : نہیں یہ اِلَّآ : مگر۔ صرف اِفْكُ : بہتان۔ من گھڑت افْتَرٰىهُ : اس نے سے گھڑ لیا وَاَعَانَهٗ : ور اس کی مدد کی عَلَيْهِ : اس پر قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ : دوسرے لوگ (جمع) فَقَدْ جَآءُوْ : تحقیق وہ آگئے ظُلْمًا : ظلم وَّزُوْرًا : اور جھوٹ
اور کہا ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا کہ نہیں ہے یہ (قرآن) مگر جھوٹ جس کو اس شخص نے گھڑ لیا ہے اور مدد کی ہے اس کی اس پر دوسرے لوگوں نے پس تحقیق لائے ہیں یہ لوگ ظلم اور جھوٹ
ربط آیات برکات دینے والی ذات اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو نازل فرمایا ہے جو کہ ایک فیصلہ کن کتاب ہے۔ اس کے نزول کی غایت یہ ہے کہ اللہ کا کامل ترین بندہ اور اس کا آخری رسول اس کتاب کے ذریعے لوگوں کو ڈرانے والا بن جائے۔ گزشتہ درس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی آسمان و زمین پر محیط سلطنت کا ذکر بھی ہو۔ اللہ نے مشرکین کا شکوہ بیان کیا کہ وہ اللہ کے سوا دوسروں کو معبود بناتے ہیں ۔ حالانکہ وہ بےاختیار ہیں ، نہ تو وہ کوئی چیز تخلیق کرسکتے ہیں اور نہ نفع نقصان کے مالک ہیں ، یہ کس قدر ظلم و زیادتی کی بات ہے۔ قرآن پاک پر اعتراض سورۃ کے اس ابتدائی تمہیدی بیان کے بعد اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی طرف سے قرآن پاک پر کیے جانے والے اعتراضات کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے وقال الذین کفروا یہ کافر لوگ کہتے ہیں لا ھذا الا افک افتراتہ یہ تو محض ایک جھوٹ ہے۔ جسے اس (رسول) نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے کفار و مشرکین کی طرف سے ایسے بیہودہ اعتراضات کا ذکر سورة یونس اور بعض دیگر سورتوں میں بھی موجود ہے۔ وہ لوگ قرآن پاک کو اللہ کا کلام تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے ، اس لیے طرح طرح کے اعتراضات کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان اعتراضات کے جوابات بھی دیئے ہیں ، مثلاً ایک مقام فر مایاقُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہٗ فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ (ہود : 53) اے پیغمبر ! آپ ان کو بتا دیں کہ اگر تمہارے بقول اس قرآن پاک کو میں نے کھڑا ہے تو پھر اس کا گناہ بھی مجھ پر ہی ہوگا ۔ اس کا ذمہ دار میں ہوگا ۔ البتہ تم اپنی فکر کرو کہ تم کیا کر رہے ہو۔ دوسری جگہ فرمایا کہ تم اس قرآن کو من گھڑت کہتے ہوفاتوا بسورۃ مثلہ ( یونس : 13) تم اس جیسی ایک سورة تو بنا کر لائو ، پھر پتہ چل جائے گا کہ کیا واقعی یہ انسان کا کلام ہے یا حقیقت میں خدا تعالیٰ کا کلام ہے جس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی ۔ قرآن پاک اللہ تعالیٰ کی صفت ہے جسے اس نے اپنے علم اور مشیت کے ساتھ نازل فرمایا ہے۔ افک گھڑی ہوئی بناوٹی بات کو کہتے ہیں ، کسی پر جھوٹ کا طومار باندھ دیا گیا ہو ۔ پچھلی سورة نور میں واقعہ افک گزر چکا ہے جس میں منافقوں نے حضرت عائشہ ؓ پر افتراء باندھا تھا اور پھر اس کی خوب تشہیر بھی کی تھی ۔ اسی طرح قرآن پاک کے متعلق بھی یہ لوگ کہتے تھے کہ محض جھوٹ ہے ۔ من گھڑت ہے ۔ اس کو وضع کرنے میں داعانہ علیہ قوم اخرون بعض دوسرے لوگوں نے اللہ کے نبی کی مدد ہے۔ اس کو بعض اوقات 1 ؎ (معالہ التزیل ص 98 ج 3 ( فیاض) یہود و نصاریٰ کی طرف منسوب کرتے تھے کہ حضور ﷺ ان سے مل کر یہ باتیں سیکھتے ہیں کیونکہ ان کے پاس پرانی کتابوں کا کچھ علم موجود تھا۔ بعض اس کو ایرانی ، رومی ، اور بعض قدیم عراقی زبان بولنے والے غلاموں کی طرف منسوب کرتے تھے۔ کہ یہ لوگ اللہ کے نبی کے کچھ باتیں بتاتے ہیں جنہیں آپ قرآن بنا کر پیش کردیتے ہیں ۔ جبر الیار ، عارس وغیرہ بعض غلام تھے مگر وہ تو بیچارے عربی زبان سے ہی ناواقف تھے ، ان سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ قبیح بلیغ عربی میں ایسا کلام پیش کریں جس کی نظیر عربی زبان کے بڑے بڑے شاعر اور ادیب بھی نہ پیش کرسکیں ، فرمایا ان لوگوں کا اعتراض بالکل لغو ہے حقیقت میں فقد جاء وظلمات وزورا یہ مشرک لوگ بہت بڑا ظلم اور جھوٹ لانے ہیں جو قرآن کو خود ساختہ کلام کہتے ہیں یہ بڑے بےانصاف لوگ ہیں جو صریح جھوٹ بول رہے ہیں۔ پھر فرمایا ، وہ یہ بھی کہتے ہی وقالواساطین الاولین کہ یہ تو پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں ۔ اکتبہا جنہیں اس شخص نے لکھ لیا ہے اور پھر ہمیں سناتا رہتا ہے ، ظالم مشرک حضور ﷺ کہتے کہ تم ہمیں اقوام عاد اور ثمود کے قصے سناتے ہو ، آئو ہم تمہیں ایران کے مہمند اور اسفندیار کے افسانے سناتے ہیں ، وہ تمہارے افسانوں سے بھی دلچسپ ہیں ( العیاذ اللہ) بہر حال انہوں نے کہا کہ یہ پہلے لوگوں کے واقعات ہیں فھی تملی علیہ بکرۃ واصیلا جو اس شخص پر صبح و شام پڑھے جاتے ہیں ۔ اور پھر یہ انہیں وحی الٰہی کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کردیتا ہے۔ اللہ کی طرف سے جواب اس بیہودہ اعتراض کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا قل اے پیغمبر ! آپ ان لوگوں سے کہہ دیں کہ یہ قرآن پاک نہ عربوں کا بنایاہ ہوا ہے نہ عجمیوں کا وضع کردہ ہے بلکہ انزلہ الذی یعلم انس فی السموات والارض یہ تو اس ذات پاک کا نازل کردہ ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر پوشیدہ چیز کو جانتا ہے ۔ وہ اللہ تعالیٰ انسانوں کی ذہنیت کو بھی جانتا ہے اور ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جو لوگوں کی تہذیب وتربیت کے لیے ضروری ہے ، دوسری جگہ فرمایا نزل الکتب 1 ؎ (معالم التزیل ص 91 و تفسیر طبریٰ ص 28 ، ج 81 ( فیاض) و ھو یتولی الصلحین ( الاعراف : 691) یہ کلام خدا تعالیٰ نے ہی منزل کیا ہے اور نیکو کاروں کی سر پرستی اور کار سازی بھی وہی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ خالق فطرت ہے وہ علیم کل ہے ، لہٰذا انسانوں کی ضروریات اور قویل کی بارچیاں بھی اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ وہ اپنی کمال قدرت سے ایسے احکام اور قوانین نازل فرماتا ہے جو انسانوں کی فطرت و ضرورت کے عین مطابق ہوتے ہیں ۔ سورۃ النساء میں فرمایا ہے انزلہ بعلم آیت 61 اللہ نے اس کلام کو اپنے علم کی روشنی میں نازل فرمایا ہے۔ یہ من گھڑت کلام نہیں ہے بلکہ یہ تو تنزیل من رب العلمین ( الواقعہ :…) تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ انہ کان عفورحیم بیشک وہ ذت بڑی بخشش کرنے والی اور نہایت مہربان ہے وہ ایک طرف تو ظلم اور جھوٹے لوگوں کو بسا اوقات مہلت دیتا رہتا ہے اور دوسری طرف کسی کی بخشش کو مغفرت بھی ایک کرشمہ ہے ۔ وہ ایسی باتیں کرنے والوں کی فوراط گرفت بھی کرسکتا ہے مگر یہ اس کی مہربانی کا نتیجہ ہے کہ اس نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے قرآن کریم جیسی عظیم الشان کتاب نازل فرمائی ہے۔ جس میں ابرار و رموز معارف کے خزانے ہیں۔ پیغمبر خدا پر اعتراض کفار کا پہلا اعتراض تو قرآن حکیم پر تھا کہ یہ نعوذ باللہ من گھڑت ہے ۔ اب دوسرا اعتراض پیغمبر (علیہ السلام) کی ذات پر کیا وقالو مال ھذا الرسول یا کل الطعام و یمشی فی الاسواق کہنے لگے یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ ان کا زعم یہ تھا کہ جس نبی میں لوازمات بشر یہ پائے جائیں وہ رسول نہیں ہو سکتا ۔ وہ لوگ بشریت اور رسالت کو دو متضاد چیزیں سمجھتے تھے کہتے تھے۔ ہماری طرح کھاتا پیتاپھرتا ہے ، مگر رسالت کا دعویٰ کرتا ہے ۔ یہ لوگوں کی پرانی بیماری ہے۔ قوم ثمود نے بھی یہی کہہ کر صالح (علیہ السلام) کی تکذیب کی۔ بشر منا واحد نتیعۃ ( القمر : 41) کیا ہم اپنے میں سے ایک بشر کو اتباع کریں ، یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ حضور خاتم النبین ﷺ کے بارے میں بھی کافر و شرک یہی کہتے تھے کہ یہ تو ہمارا جانا پہچانا انسان ہے ہم اس کو کیسے رسول تسلیم کرلیں ۔ اگر اللہ کسی کو رسول بنا کر بھیجات تو وہ کوئی فرشتہ ہوتا جو نہ کھاتا پیتا ، نہ اس کے بیوی بچے ہوتے اور نہ دیگر انسانی لوازمات اس میں پائے جاتے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ انبیاء میں پائے جانے والے لوازمات بشری ہی ان کی اقوام کے لیے پردہ بن گئے ۔ انہوں نے خلاف نبوت سمجھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں چونکہ انسانوں کی اصلاح مطلوب تھی ۔ اس لیے اللہ نے انسانوں ہی ک رسول بنا کر بھیجا یہ مضمون اللہ نے قرآن پاک میں مختلف عنوانات سے وسیع پیمانے پر بیان فرمایا ہے اگر اللہ تعالیٰ کسی فرشتے کو رسول بنا کر زمین پر بھیج دیتا تو عام انسان اس سے کیسے مستفید ہو سکتے تھے ؟ انسان کسی غیر جنس سے ہدایت حاصل نہیں کرسکتا ۔ اللہ تعالیٰ انسانوں میں سے انسانوں کی ہدایت کے لیے جن شخصیات کو منتخب فرماتا ہے ۔ ان کو امتیاز بخشتا ہے۔ وہ معصوم عن الخطاء اور اخلاقی لحاظ سے بہت بلند ہوتے ہیں ۔ وہ لوگ امت کے لیے بطور نمونہ ہوتے ہیں ، مگر ہوتے انسان ہی ہیں ۔ ان میں تمام لوازمات بشری پائے جاتے ہیں ۔ عام انسانوں کی طر ح انہیں بھی بھوک پیاس لگتی ہے ، وہ بھی کھاتے پیتے ہیں ۔ ان پر بیمار ی اور تندرسی بھی آتی ہے ان کے بیوی بچے بھی ہوتے ہیں اور یہ چیزیں منصب نبوت کے خلاف نہیں ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ کے جسم مبارک کو ہاتھ سے چھو کر کہا کہ حضور ! آپ کو تو شدید بخار ہے ۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تمہاری نسبت مجھے دگنا بخار آتا ہے۔ ابن مسعود ؓ نے (1 ؎۔ النور الکبیر ص 11 (فیاض) عرض کیا ، حضور ! پھر آپ کو اجر بھی تو بڑا بنتا ہے۔ فرمایا : یہ بھی درست ہے۔ غرضیکہ پیغمبر دوسرے لوگوں کی طرح زخمی بھی ہوتا ہے ، وہ ہنستا اور روتا بھی ہے اس کی بیوی بھی ہوتی ہے کسی کی صرف بچیاں اور کسی کے صرف بچے اور کسی کے بچے اور بچیاں دونوں ہوتے ہیں ۔ اور وہ نوع انسانی سے خارج نہیں ہوتے علم کلام کی کتابوں میں نبی کی تعریف ہی یہ کی گئی ہے۔ ھو انسان بعثہ اللہ لتبلیغ ما او حاہ اللہ الیہ نبی ایک انسان ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ اس چیز کی تبلیغ کے لیے مبعوث فرماتا ہے جو اس کی طرف وحی کی جاتی ہے ۔ مطلب یہ کہ نوع انسانی کو ایک انسان ہی ہدایت دے سکتا ہے۔ انسان کسی غیر جنس سے استفادہ حاصل نہیں کرسکتے۔ …کی امتیازی نسبت تمام انبیاء و رسل میں انسانی لوازمات ہونے کے باوجود عام انسانوں پر انہیں دینی اور اخلاقی اعتبار سے امتیاز حاصل ہوتا ہے۔ نبی عام انسانوں کی نسبت معصوم ہوتا ہے ۔ اللہ کی طرف سے اسے گارنٹی حاصل ہوتی ہے کہ اس سے کوئی گناہ سر زد نہیں ہونے دیا جاتا ۔ البتہ صحابہ کرام ؓ اور اولیاء اور صلحاء گناہ سے محفوظ ہوتے ہیں ۔ معصوم نہیں ہوتے ۔ پھر وحی الٰہی سب سے بڑا اعزاز ہے۔ جو انبیاء کو حاصل ہوتا ہے کسی غیر نبی پر وحی نہیں آتی ۔ انبیاء میں کامل درجے کی عبودیت ہوتی ہے ۔ وہ کمال درجے کے عبادت گزار اور کمال اخلاص کے مالک ہوتے ہیں ۔ ان کے اعمال میں بڑا وزن ہوتا ہے۔ البتہ ہوتے انسان ہی ہیں ۔ ان پر بھی زندگی اور موت اسی طرح وارد ہوتی ہے۔ جیسے دوسرے انسانوں پر ہوتی ہے۔ عیسائیوں نے مسیح (علیہ السلام) کو اس لیے خدا کا بیٹا کہہ دیا کہ آپ کا باپ نہیں ہے۔ اگر عقیدہ انبسیت کا یہی معیار ہے تو پھر وہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق ایسا عقیدہ کیوں نہیں رکھتے جن کا نہ باپ ہے اور نہ ماں ہے ابراہیم (علیہ السلام) اور دیگر انبیاء کو عیسائی بھی انسان مانتے ہیں مگر مسیح (علیہ السلام) کو الوہیت کا درجہ دینے کے لئے انہیں خدا کا بیٹا کہہ دیا ، یہ کتنی زیادتی کی بات ہے۔ وہ اللہ کے بندے اور انسان تھے اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت کے مطابق جس طریقے سے چاہا ان کو پیدا فرما دیا ۔ بازاروں میں جانا مشرکوں کا عقیدہ یہ تھا کہ بازاروں میں چلنا پھرنا عیب ہے۔ اسی لیے تو وہ بازاروں میں جانے والے رسول کو رسول ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ سودا سلف لانے یا کسی اور اچھے کام کے لیے بازار میں جانا کوئی عیب کی بات نہیں ہے ۔ تا ہم یہ بات درست ہے کہ مساجد کی فضلیت بازاروں کے مقابلے میں تو اپنی جگہ مسلم ہے۔ مسجدوں میں اللہ کی عبادت ہوتی ہے ، انہیں صاف ستھرا رکھا جاتا ہے ۔ جب کہ بازاروں میں بعض اوقات دھوکہ ، فریب ، وعدہ خلافی ، ما پ تول میں کمی بیشی کے واقعات بھی ہوتے رہتے ہیں ۔ تا ہم جائز کام کے لیے بازار جانا ممنوع نہیں ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے اپنے شاگرد سے فرمایا ، چلو بازار چلیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ آپ نے کوئی سودا سلف تو خریدنا نہیں ، پھر وہاں جانے کا کیا فائدہ ؟ آپ نے فرمایا : بیوقوف ! ہم بازارجا کر لوگوں کو سلام کرتے ہیں تو ہمیں نیکیاں حاصل ہوتی ہیں ۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ برکاتہ کہنے سے تیس نیکیاں تو حاصل ہوگئیں ۔ چلو چلتے ہیں ۔ واپس آ کر پھر درس و تدریس میں مصروف ہوجائیں گے۔ غرضیکہ نیک کام کے لیے بازار جانا کوئی عیب کی بات نہیں ۔ البتہ بلا ضرورت یا کسی غلط مقصد کے لیے بازار جانا یقینا گناہ کا باعث ہوگا ۔ اور غلط کام اگر مسجد میں بھی کرے گا تو وہ غلط ہی ہوگا ۔ بلکہ بازار کی نسبت دگنا گنا لازم آئے گا ۔ معترفین کا تصور رسالت کفار و مشرکین کی نبوت و رسالت پر یہ اعتراض بھی کرتے تھے لو لا انزل لیہ ملک فیکون معہ نذیر اللہ کے نبی کے ساتھ ایک فرشتہ کیوں نہیں اترتا جو ہمیشہ اس کے ساتھ رہے اور لوگوں کو بتائے کہ یہ اللہ کا رسول ہے ، نیز وہ لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرائے اس اعتراض کا جواب اللہ نے سورة الانعام میں دیا ہے۔ اللہ اعلم خیث یجعل رسلت ( الانعام : 521) وہ خوب جانتا ہے کہ رسالت کو کہاں رکھ رہا ہے ۔ وہ انسانوں کی استعداد اور صلاحیت کے مطابق ہی منصب رسالت کے لئے انتخاب کرتا ہے۔ نبوت و رسالت کسی کو خواہش اور کوشش سے نہیں ملتی بلکہ یہ تو اللہ کی مہربانی ہوتی ہے۔ فرمایا اگر ان کی خواہش کے مطابق ہم کسی فرشتے کو نبی بناکر بھیجتے تو اس کی دو ہی صورتیں تھیں ۔ یا تو فرشتہ انسانی شکل میں آتا یا اپنی ہی شکل میں ۔ اگر وہ انسانی شکل میں آتا تو پھر بھی وہی اعتراض ہوتا کہ یہ انسان ہے ہم اس کی پیروی کیوں کریں ؟ اور اگر فرشتہ اپنی اصل شکل میں نازل ہوتا تو انسان اس کی تاب نہ لاسکتے اور فوراً ہلاک ہوجاتے ، لہٰذا انسانوں کا فرشتوں سے مستفید ہونا کسی طور پر ممکن نہیں ۔ انسانوں کی رہنمائی کے لیے انسان کا رسول ہونا ہی قابل عمل ہے۔ کفار و مشرکین کہنے لگے اگر نبی کے ساتھ فرشتہ نازل نہیں ہوا تو کم از کم اتنا تو ہوتا کہ او یلقی الیہ کنز ص اس پر کوئی خزانہ اتارا جاتا اللہ کا رسول مالدار آدمی ہوتا۔ اس کے نوکر چاکر ہوتے ، عالیشان مکان ہوتا تو پھر بھی ہم سمجھتے کہ یہ اللہ کا رسول ہے۔ مکہ والوں نے بھی یہ کہا تھا کہ ہم اس یتیم کو کیسے نبی تسلیم کرلیں گے۔ اگر وحی کا نزول مکہ یا طائف کے کسی بڑے سردار پر ہونا تو ہم مان بھی لیتے ۔ کہتے او تکون لہ جنت یا کل منھا یا اس کا کوئی باغ ہوتا جس سے وہ کھاتا پیتا ، پھر بھی ہم کہتے کہ یہ کوئی بڑا آدمی ہے۔ وحی کا نزول اس پر ممکن ہے ، مگر نبوت کے اس دعویدار کے پاس تو کچھ بھی نہیں ۔ لہٰذا ہم اس کی رسالت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں اس کے برعکس وقال الظلمون ان تتبعون الا رجلاً مسحوراً ان ظالم لوگوں نے کہا کہ تم تو ایک سحر زدہ آدمی کی پیروی کر رہے ہو ۔ اس پر تو جادو کیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہ بہکی بہکی باتیں کرتا ہے ( نعوذ باللہ) اس کے حواص درست نہیں ہیں ، تم اس کے پیچھے کیسے لگ رہے ہو ؟ اس قسم کی بیہودہ باتوں کے ذریعے منصب رسالت پر اعتراض کرتے تھے۔ معترضین کی گمراہی اللہ نے فرمایا انظر کیف ضربوا لک الامثال اے پیغمبر ! آپ دیکھیں کہ ان بد بختوں نے آپ کے لیے کیسی کیسی مثالیں بیان کی ہیں ۔ یہ لوگ اپنے باطل عقائد کی وجہ سے فضلوا گمراہ ہوچکے ہیں ۔ اور گمراہی میں اس قدر دور جا پڑے ہیں فلا یستطیعون سبیلاً کہ راہ راست پر چلنے کی صلاحیت سے ہی محروم ہوچکے ہیں ۔ یہ اسی زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ انسان رسول نہیں ہو سکتا گویا بشریت منصب نبوت کے منافی ہے۔ یہ بد نصیب لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے اپنے نبی کو کتنا مال اور شرف بخشا ہے ۔ اس کا اخلاق کتنا پاکیزہ ہے اور اس کا کردار کتنا بلند ہے۔ نبی کے اخلاق و کردار پر مخالف ترین آدمی بھی کبھی انگلی نہیں اٹھا سکتا ۔ یہ لوگ دنیا کے مال و دولت کو لازمہ نبوت سمجھ رہے ہیں ۔ جو کہ بالکل غلط اور گمراہی کا باعث ہے۔ آج بھی دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ہدایت کو مال و دولت کے پیمانے سے ماپتے ہیں ۔ یہی دولت مندی ہے جو انسانوں کی گمراہی کا سبب بنتی ہے اللہ کے رسول 1 ؎ (مسلم ص 48 ج 1 (فیاض) نے فرمایا بد الاسلام غریب و سیعود کما بد ا دین اسلا م کی ابتداء غریبوں سے ہوئی اور آخر میں بھی یہ غریب طبقے میں سمٹ کر رہ جائے کا ، اکثر نچلے اور درمیان طبقے کے لوگ ہی ہدایت قبول کرتے ہیں اور دنیاوی اعتبار سے اعلیٰ درجے کے لوگ کم ہی اس طرف آتے ہیں ۔ البتہ جب مجبور ہوجائیں تو پھر ان کا دین کی طرف آنا ممکن ہوجاتا ہے ابو سفیان کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ بیس سال تک مسلمانوں کے خلاف زور آزمائی کرتے رہے فتح مکہ پر جب کوئی صورت باقی نہ رہی تو اسلام قبول کرلیا ۔ تا ہم بعد میں ان کی حالت بہت اچھی ہوگئی اور نبی کے ساتھ کمال درجے کی محبت کا ثبوت دیا۔
Top