Urwatul-Wusqaa - Al-Furqaan : 4
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفْكُ اِ۟فْتَرٰىهُ وَ اَعَانَهٗ عَلَیْهِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ١ۛۚ فَقَدْ جَآءُوْ ظُلْمًا وَّ زُوْرًاۚۛ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنْ ھٰذَآ : نہیں یہ اِلَّآ : مگر۔ صرف اِفْكُ : بہتان۔ من گھڑت افْتَرٰىهُ : اس نے سے گھڑ لیا وَاَعَانَهٗ : ور اس کی مدد کی عَلَيْهِ : اس پر قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ : دوسرے لوگ (جمع) فَقَدْ جَآءُوْ : تحقیق وہ آگئے ظُلْمًا : ظلم وَّزُوْرًا : اور جھوٹ
کافر کہتے ہیں کہ یہ قرآن اختراع ہے ، اللہ کی طرف سے نہیں اس (محمد رسول اللہ ﷺ نے خود گھڑا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اسے مدد دی ہے اور یہ (کافر) بڑے ہی ظلم اور جھوٹ پر اتر آئے ہیں
قرآن کریم سے لوگوں کو بدگمان کرنے کے لئے قریش کے لیڈروں کا کردار : 4۔ جب قرآن کریم کی آیات کفار مکہ کے سامنے پڑھی جاتی تھیں تو وہ صاف یہ محسوس کرتے تھے کہ اس کلام کی شان انسانی کلام سے بدرجہا بلند ہے ، اس سلسلہ میں وہ کئی مجلسیں منعقد کرچکے تھے کہ اس کلام کو کیا قرار دیں ؟ وہ بارہا یہ سوچ چکے تھے کہ اگر اس کو کسی شاعر کا کلام قرار دیں تو کیسے اور کسی ادیب کی طرف اس کی نسبت کریں تو کیونکر ؟ وہ سمجھتے تھے کہ قرآن کریم کے مضامین لوگوں کے دلوں کو جس طرح گرما دیتے ہیں دوسرا کوئی مضمون بھی اس طرح کی گرمی پیدا نہیں کرسکتا ان کو معلوم تھا کہ اور تو اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ خود اس یعنی محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام بھی وہ شان نہیں رکھتا جو قرآن کریم کی شان ہے جو لوگ بچپن سے آپ کو دیکھتے چلے آرہے تھے وہ خوب جانتے تھے کہ آپ ﷺ کی زبان اور قرآن کریم کی زبان میں کتنا فرق ہے ، بلاشبہ ان کے لئے بھی یہ ممکن نہ تھا کہ ایک آدمی جو چالیس پچاس برس سے شب روز ان کے درمیان رہتا ہے وہ یکایک کسی وقت بیٹھ کر ایسا کلام کیسے گھڑ لیتا ہے جس کی زبان میں اس کی اپنی جانی پہچانی زبان سے قطعا کوئی مشابہت نہیں پائی جاتی ، یہ چیز ان کے سامنے حق بالکل بےنقاب کر کے لے آئی تھی مگر چونکہ وہ نہ ماننے کا فیصلہ کرچکے تھے اس لئے بڑی ڈھٹائی سے کہتے تھے کہ یہ قرآن اس کی اختراع ہے یہ اللہ کی طرف سے نہیں بلکہ خود محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھڑا ہے پھر جب سوچتے کہ یہ بات ہماری تسلم نہیں ہوگی تو ساتھ ہی طرح مصرع یوں لگاتے کہ ” کچھ دوسرے لوگوں نے بھی اسے مدد دی ہے “ صاف بات ہے کہ یہ لوگ اتنے بےحیا ہیں کہ آپ ﷺ پر قرآن کریم خود گھڑ لانے کا الزام عائد کرتے ہیں حالانکہ ان کو خوب معلوم ہے کہ یہ ان کا تصنیف کردہ کلام نہیں ہوسکتا پھر دوسری جگہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ کلام کچھ نہیں مگر سحر ہے حالانکہ ان کا اس کلام کو سحر قرار دینا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کلام غیر معمولی ہے جس کا کسی انسان کی تصنیف ہونا ان کے اپنے نزدیک بھی ممکن نہیں ہے ، ان کی چالاکی کا آپ لوگ اندازہ کریں کہ انہوں نے یہ فقرہ ” واعانہ علیہ قوم اخرون “ کہہ کر کس طرح دھوکادینا چاہا چونکہ قرآن کریم میں سابق انبیاء کرام (علیہ السلام) کے تذکار تھے اور وہ جانتے تھے کہ ان سرگزشتوں کے جاننے کا کوئی ذریعہ بظاہر محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس نہیں تھا اس لئے انہوں نے اس اعتراض کا دفاع یہ تلاش کیا کہ اس کی مدد بہت سے دوسرے لوگوں نے بھی کی ہے تاکہ وہ اپنے جھوٹ کو چھپانے کے لئے ایک عذر پیش کرسکیں اور کوئی شخص اس طرح کا اعتراض کرے تو وہ اس کا جواب دے سکیں گویا یہ ان کی ایک شاطرانہ چال تھی جو انہوں نے قبل از وقت ہی چل دی ، مخالف اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے آئے ہیں اور آج بھی استعمال کر رہے ہیں اور ہمیشہ استعمال کرتے رہیں گے ، بات کرنے اور کہنے کا جب تک کوئی اصول مقرر نہ کیا جائے تو اس وقت اکثر یہی ہوتا ہے کہ انسان دفع الوقتی کے لئے جو بات اس کے ذہن میں آتی ہے کہہ دیتا ہے اور نہیں سمجھتا کہ اس نے پہلے کیا کہا تھا اور اب کیا کہہ رہا ہے یہی بات ان معترضین کی تھی کہ جب نہ ماننے کی قسم کھالی تو اب اپنے مؤقف کو تقویت دینے کے لئے جو بات اس وقت سمجھ میں آئی کہہ دی تاکہ وقت چل جائے اس وقت ہمارے پورے معاشرے کا یہی حال ہے خواہ وہ حکمران ہوں یا رعایا وعوام ہوں یا خواص مذہبی پیشوا ہوں یا سیاسی لیڈر سب کے سب دفع الوقتی کے لئے بیان بازی کرتے ہیں اور ان کے بیان میں کفار مکہ کی طرح کوئی صداقت نہیں ہوتی اور یہ مرض اتنا بڑھ چکا ہے کہ سب اس میں مبتلا ہیں اس لئے کوئی کسی کو کچھ نہیں کہہ سکتا اللہ تعالیٰ اس بیماری سے بچائے ۔
Top