Mutaliya-e-Quran - Al-Furqaan : 4
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفْكُ اِ۟فْتَرٰىهُ وَ اَعَانَهٗ عَلَیْهِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ١ۛۚ فَقَدْ جَآءُوْ ظُلْمًا وَّ زُوْرًاۚۛ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) اِنْ ھٰذَآ : نہیں یہ اِلَّآ : مگر۔ صرف اِفْكُ : بہتان۔ من گھڑت افْتَرٰىهُ : اس نے سے گھڑ لیا وَاَعَانَهٗ : ور اس کی مدد کی عَلَيْهِ : اس پر قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ : دوسرے لوگ (جمع) فَقَدْ جَآءُوْ : تحقیق وہ آگئے ظُلْمًا : ظلم وَّزُوْرًا : اور جھوٹ
جن لوگوں نے نبیؐ کی بات ماننے سے انکار کر دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ فرقان ایک من گھڑت چیز ہے جسے اِس شخص نے آپ ہی گھڑ لیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اِس کام میں اس کی مدد کی ہے بڑا ظلم اور سخت جھوٹ ہے جس پر یہ لوگ اتر آئے ہیں
وَقَالَ الَّذِيْنَ [ اور کہا ان لوگوں نے جنہوں نے ] كَفَرُوْٓا [ انکار کیا ] اِنْ ھٰذَآ [ نہیں ہے یہ ] اِلَّآ اِفْكُۨ [ مگر ایک جھوٹ ] افْتَرٰىهُ [ اس نے گھڑا اس کو ] وَاَعَانَهٗ [ اور اعانت کی اس کی ] عَلَيْهِ [ اس پر ] قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ ڔ [ ایک دوسری قوم نے ] فَقَدْ جَاۗءُوْ [ پس وہ لوگ آئے ہیں ] ظُلْمًا [ ظلم کے ساتھ ] وَّزُوْرًا [ اور جھوٹ کے ساتھ ] نوٹ۔ 2: آیت۔ 4 ۔ 5 ۔ میں جو اعتراض نقل کیا گیا ہے یہ وہی اعتراض ہے جو آج کل کے مغربی علماء قرآن مجید کے خلاف پیش کرتے ہیں ۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ مشرکین مکہ نے کبھی یہ نہیں کہا کہ نبی ﷺ بچپن میں جب عیسائی راہب سے ملے تھے اس وقت یہ مضامین سیکھ لئے تھے۔ اور نہ یہ کہا کہ جوانی میں تجارتی سفروں کے دوران راہبوں اور یہودی علماء سے یہ معلومات حاصل کی تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے تھے کہ یہ سفرا کیلئے نہیں بلکہ قافلوں کے ساتھ ہوئے تھے۔ اور وہ جانتے تھے کہ اگر ہم یہ الزام لگائیں گے تو مکہ میں سینکڑوں زبانیں ہم کو جھٹلا دیں گی۔ اس کے علاوہ مکہ کا عام آدمی پوچھے گا اگر یہ معلومات آپ ﷺ کو تیرہ برس کی عمر میں عیسائی راہب سے حاصل ہوگئی تھیں یا 25 برس کی عمر میں تجارتی سفروں کے دوران حاصل ہوئی تھیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ چالیس برس کی عمر تک ان کا یہ سارا علم چھپا رہا اور کبھی ایک لفظ بھی ان کی زبان سے ایسا نہ نکلا جو اس علم کی غمازی کرتا ۔ یہی وجہ ہے کہ کفار مکہ نے ایسے سفید جھوٹ کی جرأت نہ کی اور اسے بعد کے زیادہ بےحیا لوگوں کے لئے چھوڑ دیا۔ وہ یہ کہتے تھے کہ اگلے لوگوں کی کتابوں کے اقتباسات راتوں کو ترجمہ اور نقل کرائے جاتے ہیں۔ پھر یہ کسی سے پڑھواکر سنتے ہیں اور یاد کرکے ہم کو سناتے ہیں۔ اس سلسلہ میں وہ چند آدمیوں کے نام لیتے تھے جو آزاد کردہ غلام تھے۔ مکہ میں رہتے تھے اور اہل کتاب تھے۔ بظاہر یہ اعتراض وزنی معلوم ہوتا ہے لیکن اس کے جواب میں قرآن نے کوئی دلیل نہیں پیش کی اور صرف یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ تم ظلم کر رہے ہو اور جھوٹ کہتے ہو، یہ تو اللہ کا کلام ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ایسا ہی بےوزن اعتراض تھا کہ اس کے جواب میں بس ظلم اور جھوٹ کہہ دینا کافی تھا۔ کیا وجہ ہے کہ اس مختصر جواب کے بعد نہ عوام نے کسی واضح جواب کا مطالبہ کیا، نہ ایمان لانے والوں کے دلوں میں کوئی شک پیدا ہوا اور نہ مخالفین یہ کہہ سکے کہ ہمارے اس اعتراض کا جواب نہیں بن پڑ رہا ہے اور محض ظلم اور جھوٹ کہہ کر بات ٹالی جا رہی ہے۔ اس گتھی کا حل ہمیں اسی ماحول سے مل جاتا ہے جس میں یہ اعتراض کیا گیا تھا۔ پہلی بات یہ تھی کہ مکہ کے سرداروں کے لئے یہ کچھ بھی مشکل نہ تھی کہ وہ مذکورہ افراد کے گھروں پر چھاپے مار کر پرانی کتابیں اور ان کے ترجمے برآمد کرکے عوام کے سامنے پیش کردیتے۔ لیکن وہ بس زبانی دعوے کرتے رہے اور کبھی بھی یہ فیصلہ کن قدم نہیں اٹھایا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس سلسلہ میں جن لوگوں کا نام لیتے تھے وہ مکہ کے رہنے والے تھے۔ ان کی قابلیت کسی سے چھپی ہوئی نہ تھی۔ ہر شخص دیکھ سکتا تھا کہ نبی ﷺ جو کلام پیش کر رہے ہیں وہ کس پائے اور مرتبے کا ادب ہے اور مذکورہ لوگ کس درجے کے ہیں۔ اس وجہ سے کسی نے بھی اس اعتراض کو کوئی وزن نہ دیا۔ ہر شخص سمجھتا تھا کہ ان باتوں سے بس چلے دل کے پھپھولے پھوڑے جا رہے ہیں ورنہ اس اعتراض میں کوئی جان نہیں ہے۔ اور اگر یہ لوگ ایسی ہی قابلیت رکھتے تھے تو انہوں نے اس سے خود اپنا چراغ کیوں نہ چلایا۔ اور نہ ہی نبی ﷺ نے اسے اپنے کلام کے طور پر پیش کیا۔ (تفہیم القرآن سے ماخوذ)
Top