Mualim-ul-Irfan - Ash-Shu'araa : 60
فَاَتْبَعُوْهُمْ مُّشْرِقِیْنَ
فَاَتْبَعُوْهُمْ : پس انہوں نے پیچھا کیا ان کا مُّشْرِقِيْنَ : سورج نکلتے
پھر پیچھے آئے وہ ان کے سورج نکلنے کے وقت
ربط آیات گزشتہ درس میں گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ اپنی قوم کو لے کر راتوں رات مصر سے نکل جائیں اور ساتھ یہ بھی بتلا دیا کہ فرعون کا لشکر آپ کا تعاقب کرے گا ۔ حسب حکم موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر نکل کھڑے ہوئے۔ جیسا کہ پہلے درس میں بیان ہوچکا ہے کہ بنی اسرائیل ہر سال خاص دنوں میں اپنا قومی میلہ منایا کرتے تھے ۔ حسب معمول اس سال بھی انہوں نے باہر جا کر جشن منانے کا پروگرام بنایا اور اس سلسلے میں بعض نے قبضیوں سے زیورات بھی مانگے جو انہوں نے بخوشی دے دیے۔ پروگرام کے مطابق موسیٰ علیہ السلم بمع قوم بنی اسرائیل مصر سے نکل گئے اور چلتے چلتے بحر قلزم کے کنارے پر پہنچ گئے ۔ اب انہیں اپنے وطن ارض مقدس شام و فلسطین پہنچنا تھا مگر راستے میں بحر ملزم پڑتا تھا۔ اس دوران میں فرعونیوں کو شک گزرا کہ بنی اسرائیلی کہیں بھاگ ہی نہ جائیں ۔ چناچہ فرعون نے بڑے بڑے شہروں میں گھڑ سوار دوڑا دیے تا کہ وہ تمام چھائونیوں سے فوج کو اکٹھا کریں اور ساتھ ساتھ ملک کے سرکردہ آدمیوں کو بھی بلا لائیں تا کہ بنی اسرائیل کا تعاقب کر کے انہیں پکڑا جاسکے۔ اس حکم کی تعمیل میں دو تین دن گزر گئے۔ اتنے میں بنی اسرائیل بحر قلزم کے کنارے پر پہنچ چکے تھے۔ فرعون نے تمام جمع شدہ فوج اور دیگر سر برآور دہ لوگوں کو بتلایا کہ بنی اسرائیل کی ایک قلیل سی جماعت ہمیں تنگ کرتی ہے اور اب وہ بھاگ کھڑے ہوئے ۔ یہ ہمیں بہت غصہ دلا رہے ہیں ۔ لہٰذا ان کا تعاقب کر کے نہیں اپنی غلامی میں رہنے پر مجبور کرنا چاہئے۔ سب فرعونیوں نے اس تجویز کی حمایت کی اور وہ بنی اسرائیل کے تعاقب میں چل نکلے۔ اب آج کے درس میں واقعہ کا اگلا حصہ بیان کیا جا رہا ہے۔ بنی اسرائیل کی خوفزدگی ارشاد ہوتا ہے فاتبعوا ھم مشرقین فرعونیوں نے سورج کے نکلنے کے وقت ہی بنی اسرائیل کا تعاقب شروع کردیا ۔ وہ بڑی شان و شوکت سے بنی اسرائیل کو تہس نہس کرنے کے ارادے سے نکلے ان کی کل تعداد تفسیری روایات کے مطابق بارہ تیرا راکھ تھی ۔ بعض کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک لاکھ تو صرف سیاہ رنگ کے گھوڑوں پر سوار تھے۔ ایک اور روایت کے مطابق سیاہ رنگ کے گھڑ سواروں کی تعداد آٹھ تھی ۔ تا ہم یہ روایات قابل اعتماد نہیں کیونکہ قرآن پاک یا کسی صحیح روایت میں ان کی تعداد نہیں بتائی گئی ۔ بہر حال یہ لشکر تعاقب کرتے ہوئے بنی اسرائیل کے قریب پہنچ گیا فلما نواء الجمعن جب دونوں جماعتوں نے ایک دوسری کو دیکھا قالہ اصحب موسیٰ انا مدرکون تو موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھی کہنے لگے کہ اب تو ہم پکڑے گئے ۔ ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل سمندر کے کنارے کھڑے تھے۔ سمندر میں کود جانے کے لیے ان کے پاس کوئی کشتیاں بھی نہیں تمہیں اور پیچھے سے فرعون کا لشکر بھی پہنچ گیا تو ان کی تشویش ایک فطری امر تھا ۔ انہوں نے گھر آ کر موسیٰ (علیہ السلام) سے اپنی بےبسی کا اظہار کیا ۔ موسیٰ (علیہ السلام) الٰہی کی تعمیل میں مصر سے نکلے تھے۔ لہٰذا انہیں اللہ تعالیٰ کی اعانت پر مکمل بھروسہ تھا چناچہ انہوں نے قوم کو تسلی دیتے ہوئے قال کلا فرمایا فرعون تمہیں ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکتا کیونکہ ان معی ربی میرا رب میرے ساتھ ہے۔ ہم اسی کے حکم سے مصر سے نکلے ہیں ۔ اسی کی مدد ہمارے شامل حال ہے سیھدین وہ ضرور مجھ کو راہ بتلائے گا ۔ یعنی ہمارے بچائو کی کوئی سبیل پیدا کرے گا ۔ بالکل اسی قسم کا واقعہ حضور ﷺ کے ساتھ بھی پیش آیا ہے ہجرت پر روانہ ہوتے وقت جب حضور ﷺ اور آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے غار ثور میں قیام فرمایا تو قریش مکہ آپ کی تلاش میں غار کے منہ تک پہنچ گئے۔ حتیٰ کہ اندر سے انکے پائوں بھی نظر آ رہے تھے۔ اگر وہ نیچے جھک کر دیکھ لیتے تو حضور ﷺ کو پا لیتے مگر انہیں ایسا کرنے کی توفیق نہ ملی ۔ غار کے منہ پر مکڑی کا جالا تھا اور وہ سمجھ رہے تھے کہ اس کے اندر کسی شخص کے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بہرحال اس نازک موقع پر حضرت بو بکر صدیق ؓ کی پریشانی بجا تھی ۔ چونکہ حضور ﷺ بھی اپنے پروردگار کے حکم سے ہجرت کے لیے نکلے تھے ۔ اس لیے انہیں بھی خدا تعالیٰ کی نصرت پر پورا پورا بھروسہ تھا۔ آپ نے صدیق اکبر ؓ کو ان الفاظ کے ساتھت سلیم دی لا تحزن ان اللہ معنا ( التوبہ : 04) آپ خوف نہ کھائیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے ۔ وہی ہمیں دشمنوں سے بچانے کا وہاں آپ نے صدیق اکبر ؓ کو شامل کرکے جمع کا صیغہ معنا فرمایا جب کہ آیت زیر درس میں موسیٰ (علیہ السلام) نے صیغہ واحد معی استعمال کیا ہے مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ ہے اور میری وساطت سے پوری قوم کا حامی و ناصر ہے۔ بنی اسرائیل کے لیے خشک راستے اس پریشانی کے عالم میں اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہوئی فاوحینا الی موسیٰ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی ان اضرب بعصک النبی کہ اپنی لاٹھی کو سمندر پر مارو یہ وہی متبرک لاٹھی تھی جسے مقابلے کے میدان میں پھینکا تھا تو یہ بہت بڑا اژدھا بن گئی اور پھر اس نے جادوگروں کے بنائے ہوتے تمام سانپوں کو نگل لیا ۔ اب اس کو پانی پر مارنے کا حکم ہوا ۔ جو نہی آپ نے پانی پر لاٹھی ماری فانفلق تو پانی پھٹ گیا لاٹھی مارنے کی جگہ کے اطراف میں پانی منجمد ہو کر پہاڑوں جیسے بڑے بڑے برف کے تودوں کے شکل میں کھڑا ہوگیا اور بیچ میں چلنے کے لیے راستہ بن گیا ۔ فرمایا فکان کل فرق کا الطورالعظیم پانی کا ہر حصہ بڑے بڑے پہاڑوں کی مانند کھڑا ہوگیا ۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے اور سمندر میں بارہ راستے بن گئے تا کہ ہر قبیلہ ایک ایک راستے پر چلتا ہوا سمندر کو عبور کرلے۔ حضرت قتادہ (رح) فرماتے ہیں کہ اس رات اللہ تعالیٰ نے دریا کی طرف پہلے ہی وحی بھیج دی کہ جب میرے پیغمبر موسیٰ (علیہ السلام) آئیں اور تجھے لاٹھی ماریں تو ان کی سننا اور ماننا ۔ چناچہ سمندر رات بھر تلاطم میں رہا ۔ اس کی موجیں اور ادھر ادھر سر ٹکراتی رہیں کہ نامعلوم موسیٰ (علیہ السلام) کب اور کدھر سے آ کر مجھے لاٹھی ماردیں اور مجھے خبر ہی نہ ہو جس کی وجہ سے ان کے حکم کی تعمیل نہ ہو سکے۔ جب آپ سمندر کے بالکل کنارے پر پہنچ گئے تو آپ کے ساتھ یوشع بن نون (علیہ السلام) نے پوچھا ، اللہ کے نبی ! آپ کو کیا حکم ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے سمندر پر لاٹھی مارنے کا حکم ہے۔ انہوں نے کہا پھر دیر کیا ہے ؟ پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے پانی پر لاٹھی مار کر کہا کہ مجھے چلنے کا راستہ دے دے پس اسی وقت پانی پھٹ گیا اور درمیان میں بارہ راستے صاف نظر آنے لگے ۔ ہوا کہ حکم ہوا کہ ان راستوں کو خشک کر کے چلنے کے قابل بنا دو ، چناچہ ایسا ہی ہوا ، پھر بارہ راستوں کے درمیان طاق بھی بن گئے ۔ جن کے ذریعے بارہ قبائل ایک دوسرے کو دوران سفر دیکھ سکتے تھے۔ بائبل کا بیان ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ اپنا ہاتھ ہلائو ۔ جب آپ نے ایسا کیا تو ہوا نے اپنی کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ۔ یہ درست نہیں ہے بلکہ لاٹھی مارنے والا واقعہ درست ہے۔ بعض سر سید جیسے گمراہ لوگوں کی نام نہاد و تحقیق یہ ہے کہ سمندر میں مدو جزر جیسے حالات پیدا ہوگئے تھے۔ مدو جزر میں سمندر کا پانی کئی کئی میل تک خشکی پر چڑھ جاتا ہے اور پھر واپس بھی چلا جاتا ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ سمندر کا پانی جذر کی حالت میں پیچھے ہٹ گیا تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھی اس کو پار کر گئے۔ پھر جب مد آیا تو فرعونی لشکر غرق ہوگیا ۔ یہ سب ملحدانہ باتیں ہیں صحیح بات یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے لا ٹھی ماری تو پانی دو حصوں میں تقسیم ہو کر بڑے بڑے پہاڑوں جیسے برف کے تودوں کی شکل میں کھڑا ہوگیا اور درمیان میں بارہ راستے بن گئے ۔ جن پر سے بنی اسرائیل گزر گئے۔ فرعونیوں کی غرقابی ارشاد ہوتا ہے وازلفنا ثم الاخرین پھر ہم نے پہنچادیا وہاں پر دوسروں یعنی فرعونیوں کو ۔ جب فرعون اور اس کے لشکر نے دیکھا کہ بنی اسرائیل سمندر کے بیچوں بیچ بنے ہوئے راستوں پر جا رہے ہیں تو انہوں نے بھی پیچھے جانا چاہا پہلے تو انہوں نے کچھ پس و پیش کیا مگر جیسا کہ روایات میں آتا ہے۔ جبرئیل (علیہ السلام) سیاہ گھوڑے پر سوار ہو کر آئے اور انہوں نے اپنا گھوڑا فرعون کے گھوڑے کے آگے لگا دیا جسے دیکھ کر فرعون کا گھوڑا بھی سمندر میں اتر گیا اور پھر اس کے پیچھے سارا لشکر اسی راستے پر چل نکلا ۔ جب وہ سارے کے سارے سمندر کے اندر پہنچ گئے تو اتنے میں بنی اسرائیل سمندر کو عبور کر کے دوسرے کنارے پر پہنچ چکے تھے جب آخری اسرائیل خشکی پر پہنچا تو عین اسی وقت آخری فرعونی سمندر میں اتر چکا تھا چناچہ اللہ کے حکم سے سمندر کا منجمد پانی پھر سے آپس میں مل گیا ۔ نتیجہ یہ ہوا وانجینا موسیٰ ومن معہ اجمعین کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے تمام ساتھیوں کو بچا لیا ۔ ان میں سے فرد واحد بھی ضائع نہ ہوا ۔ ثم اغرقنا الاخرین پھر ہم نے دوسروں یعنی فرعونیوں کو سمندر میں ڈبو کر ہلاک کردیا۔ فرمایا ان فی ذلک لایۃ اس سارے واقعہ میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے نشانی ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے فرمانبرداروں کو محفوظ رکھتا ہے اور نافرمانوں کو نیست و نابود کردیتا ہے۔ فرمایا حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کی بیشمار نشانیاں دیکھنے کے باوجو وما کان اکثرھم مومنین لوگوں کی اکثریت ایمان سے خالی رہتی ہے ۔ آج پوری دنیا میں دیکھ لیں پانچ ارب کی آبادی میں سے غالب اکثریت کفر و شرک میں مبتلا ہے اور ایمان سے خالی ہے ایک قلیل تعداد ایمان کی دولت سے مالا مال ہے ، باقی سب بےدین اور ملحد ہیں فرمایا وان ربک لھو العزیز الرحیم بیشک تیرا پروردگار غالب بھی ہے اور از حد مہربان بھی ہے۔ وہ ہر نافرمان ، مشرک اور کافر کے لیے زبردست اور اس کو سزا دینے پر قادر ہے جب کہ ہر اطاعت گزار کے لیے نہایت شفیق اور مہربان ہے۔
Top