Anwar-ul-Bayan - Ash-Shu'araa : 60
فَاَتْبَعُوْهُمْ مُّشْرِقِیْنَ
فَاَتْبَعُوْهُمْ : پس انہوں نے پیچھا کیا ان کا مُّشْرِقِيْنَ : سورج نکلتے
تو انہوں نے سورج نکلتے ہی (یعنی صبح کو) انکا تعاقب کیا
(26:60) فاتبعوھم ماضی جمع مذکر غائب ھم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب جس کا مرجع بنی اسرائیل ہے۔ وہ ان کے تعاقب میں گئے۔ وہ ان کے پیچھے گئے۔ مشرقین۔ اسم فاعل جمع مذکر اشراق مصدر باب افعال۔ اشراق کے وقت جب سورج طلوع ہو تو عرب کہتے ہیں شرقت الشمس اور جب اس کی روشنی پھیل جائے تو کہتے ہیں اشرقت الشمس۔ اس لئے مشرقین کا مطلب یہ ہوا کہ جب سورج چڑھ آیا اور اس کی روشنی ہر طرف پھیل گئی تو فرعون کا لشکر تعاقب میں نکلا۔ : آیت 54 تا 56 فرعون کا اعلان ہے کہ یہ لوگ حقیر و ذلیل و کمین اور ایک مٹھی بھر لوگ ہیں لیکن اپنی سرکشی اور شرپسندی سے انہوں نے ہم کو سخت غصہ دلایا ہے (اگرچہ یہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے لیکن پھر بھی) ہم سب محتاط اور مسلح ہیں (اور ان کو ان کی سرکشی اور گستاخی کا مزہ چکھا کے رہیں گے) ۔ آیات 57 تا 59 عبارت جملہ معترضہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے سرداروں کے دل میں بنی اسرائیل کے خلاف حد سے زیادہ انتقام کا جذبہ پیدا کردیا کہ عام فوج کو بھیجنے کی بجائے خود فرعون بمعہ امراء ووزراء لشکر جرار کے ساتھ اپنے باغات و چشمے ، خزانے وعمارتیں خالی کر کے تعاقب میں چل نکلا اور یہ باغات و چشمے و محلات بنی اسرائیل کا مقدر بن گئے۔ یہاں اور ثنھا میں ھا ضمیر مطلق باغوں وچشموں وغیرہ کی طرف راجع ہے اور اس سے مراد خاص مصر کے باغات و چشمے وغیرہ نہیں جو امراء سلطنت خالی کرکے بنی اسرائیل کے تعاقب میں نکلے تھے۔ آیت 59 میں ان باغات وغیرہ کا اشارہ فلسطین کی بابرکت زمین کی طرف جہاں ایسے باغات و چشموں کی فراوانی تھی بھی ہوسکتا ہے۔ آیت نمبر 60 سے سلسلہ کلام پھر شروع ہوتا ہے۔
Top