Mualim-ul-Irfan - Al-Qasas : 7
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّ مُوْسٰۤى اَنْ اَرْضِعِیْهِ١ۚ فَاِذَا خِفْتِ عَلَیْهِ فَاَلْقِیْهِ فِی الْیَمِّ وَ لَا تَخَافِیْ وَ لَا تَحْزَنِیْ١ۚ اِنَّا رَآدُّوْهُ اِلَیْكِ وَ جَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ
وَاَوْحَيْنَآ : اور ہم نے الہام کیا اِلٰٓى : طرف۔ کو اُمِّ مُوْسٰٓى : موسیٰ کو اَنْ اَرْضِعِيْهِ : کہ تو دودھ پلاتی رہ اسے فَاِذَا : پھر جب خِفْتِ عَلَيْهِ : تو اس پر ڈرے فَاَلْقِيْهِ : تو ڈالدے اسے فِي الْيَمِّ : دریا میں وَ : اور لَا تَخَافِيْ : نہ ڈر وَلَا تَحْزَنِيْ : اور نہ غم کھا اِنَّا : بیشک ہم رَآدُّوْهُ : اسے لوٹا دیں گے اِلَيْكِ : تیری طرف وَجَاعِلُوْهُ : اور اسے بنادیں گے مِنَ : سے الْمُرْسَلِيْنَ : رسولوں (جمع)
اور وحی بھیجی ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کی طرف کہ اس ( بچے) کو دودھ پلاتی رہو ۔ پھر جب تم خوف کھائو اس پر تو ڈال دو اس کو دریا میں ، اور نہ خوف کھائو۔۔۔ اور نہ غمگین ہو ۔ بیشک ہم لوٹا دیں گے اس کو تمہاری طرف ، اور بنانے والے ہیں ہم اس کو رسولوں میں سے
ربط آیات اس سورة مبارکہ کی ابتدائی آیات میں قرآن پاک کی حقانیت و صداقت کے ذکر کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے واقعہ کی طرف اجمالی طور پر اشارہ کیا گیا ۔ امام احمد (رح) نے روایت بیان کی ہے کہ حضرت معدی کرب ؓ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے عرض کیا کہ مجھے سورة طسم سنائو تو انہوں نے فرمایا کہ تم یہ سورة اس شخص سے سنو جس نے اے براہ راست حضور ﷺ کی زبان مبارک سے سن کر یاد کیا ہو ۔ اس سلسلے میں انہوں نے حضرت خباب بن ارت ؓ کا پتہ بتایا ۔ جب وہاں پہنچے تو انہوں نے یہ ساری سورة سنا دی ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے کل ستتر 77 سورتیں حضور حضور ﷺ کے دہن مبارک سے سن کر سیکھی تھیں مگر اس سورة سے متلق انہوں نے معذوری کا اظہار کردیا ۔ دراصل اس سورة میں اہل ایمان کے لیے تسلی کا مضمون ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے ظلم و ستم میں پسے ہوئے بنی اسرائیل کو کس طرح نجات دی اور فرعون اور اس کے حواریوں کو غر ق کیا ۔ سورۃ کی ابتدائی آیات میں فرعون کی پالیسی کا اجمالا ً ذکر تھا کہ وہ بڑا مغرور اور سر کش تھا۔ اس نے عوام کو مختلف طبقات میں تقسیم کر رکھا تھا۔ بعض کی عزت افزائی کرتا تھا۔ اور بعض کو ذلیل و خوار کرتا تھا ، اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ کمزوروں اور بےکسوں کو قعر مذلت سے نکال کر ان کو پیشوائی عطا کی جائے ، اور فرعون اور اس کے حواری ہامان وغیرہ کو وہی چیز دکھادے جس سے وہ ڈرتے تھے ۔ وہ اسی چیز سے خوف کھاتے تھے کہ ان کی سلطنت ضائع نہ ہوجائے مگر اللہ نے ان کی جڑ بنیاد ہی سے اکھاڑ کر رکھ دی۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی ابتدائی زندگی موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی کے مختلف حصوں کا ذکر مختلف سورتوں میں بیان کیا گیا ہے ۔ سورة الشعراء میں زیادہ تر نبوت کے بعد کے حالات تھے جب کہ اس سورة میں روئے سخن قبل از نبوت حالات کی طرف زیادہ ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے واوحینا الی امر موسیٰ ان ارضعیہ اور ہم نے وحی بھیج موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کی طرف کہ اس بچے کو دودھ پلاتی رہیں ۔ فاذا اخفت علیہ فالقیہ فی الیم پھر جب تجھے کوئی خطرہ ہو فرعونیوں کی طرف سے تو اس بچے کو دریا میں ڈال دیں ولا تخا فی ولا تخزنی اور نہ خوف کھانا اور نہ عم کرنا انا رادہ الیک ہم اسے تیری طرف لوٹا دیں گے۔ وجاعلوہ من المرسلین اور ہم اس کو رسولوں میں سے بنانے والے ہیں ۔ گزشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ فرعون بنی اسرائیل کے ہر نوزائیدہ بچے کو محض اس لیے قتل کروا دیتا تھا مبادا کہ یہی بچہ میری سلطنت کے زوال کا باعث نہ بن جائے جب موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی تو آپ کی والدہ کو فکر ہوئی کہ اگر فرعون کے گماشتوں کو بچے کی پیدائش کا علم ہوگیا تو وہ اسے قتل کردیں گے ، لہٰذا وہ بچے کو بچانے کے لیے تدبیریں سوچنے لگی۔ اسی پریشانی کے عالم میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو وحی کے ذریعے یہ تدبیر بتائی کہ اس بچے کو فوری طور پر اپنے آپ سے جدا نہ کرنا بلکہ اسے اپنے پاس رکھ کر اس کی پرورش کرتی رہو اور جب بچے کی جان پر زیادہ خطرہ محسوس کرو تو کوئی دوسری تدبیر کرنے کی بجائے اسے صندوق میں بند کر کے دریا میں بہا دینا اس کی زندگی کے محافظ ہم خود ہیں ۔ تم اس کے متعلق فکر مند نہ ہونا ، ہم خود بچے کو تمہیں واپس لوٹا دیں گے اور یہ تمہاری ہی تحویل میں پرورش پائیگا۔ پھر ایک وقت آئے گا کہ ہم اس کے سر پر نبوت و رسالت کا تاج بھی رکھیں گے۔ اور موسیٰ کی طرف وحی پر اشکال اس آیت کریمہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کی طرف وحی بھیجنے کا ذکر ہے ۔ ظاہر ہے کہ وہ ایک عورت تھیں اور عورت نبیہ نہیں ہوتی ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ اِلاَّ رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ (الانبیائ : 7) ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی نبی اور رسول بھیجے ہیں وہ سب مرد تھے اور ہم نے ان کی طرف وحی نازل کی ۔ اب سوال یہ ہے کہ ام موسیٰ کی طرف کس حیثیت سے وحی بھیجی گئی۔ تمام مفسرین 1 ؎ اس بات پر متفق ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نبی یا رسول نہیں تھیں ۔ البتہ بعض عورتوں کو اللہ نے صدیقت کے درجے پر فائز کیا ہے۔ ان میں حضرت مریم ؓ ، حضرت خدیجہ ؓ ، حضر ت فاطمہ ؓ ، فرعون کی بیوی آسیہ ؓ اور بعض دیگرنیک خواتین شامل ہیں اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو بھی زیادہ سے زیادہ انہی خواتین میں شامل کیا جاسکتا ہے ، تا ہم وہ نبیہ نہیں تھیں ۔ ان کے نام میں اختلاف ہے بعض 2 ؎ نے محیانہ ، بعض نے یا راہ اور بعض 3 ؎ نے یو خابد لکھا ہے ۔ اس ضمن مفسرین 4 ؎ کر ایم فرماتے ہیں کہ دراصل وحی کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک وحی نبوت و رسالت ہے اور یہ انبیاء اور رسل کے ساتھ مخصوص ہے ، کسی غیر ینی پر یہ وحی نہیں آتی ۔ البتہ وحی کی دوسری قسم الہامی ہے جو نبیوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کی طرف بھی ہو سکتی ہے۔ اس وحی کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ مثلاً ایک صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی مخلوق کی طبیعت اور مزاج میں کوئی بات ڈال دے جیسے شہد کی مکھیوں کے متعلق فرمایا واوحی ربک الی النحل ( النحل : 86) تیرے پروردگار نے شہد کی مکھیوں کی طرف وحی بھیجی یعنی ان کی طبیعت اور مزاج میں یہ بات ڈال دی کہ وہ پھلوں اور پھولوں کا رس چوس کر اس سے شہد تیار کریں ۔ وحی الہام کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی چیز کسی کو خواب میں بتلا دے ، ہو سکتا ہے کہ ام موسیٰ کو مذکورہ بات خواب کے ذریعے بتا دی دی گئی ہو۔ یا ان کے مزاج میں یہ بات ڈال دی گئی ہو۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کسی فرشتے کو انسانی شکل میں بھیج کر بھی کوئی بات سمجھا دیتا ہے۔ صحیح حدیث میں تین آدمیوں کی آزمائش کا ذکر آتا ہے۔ ان میں سے ایک برص والا ، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا تھا۔ اللہ نے ان کی آزمائش انسانی شکل میں فرشتے کے ذریعے کرائی ۔ مگر ان میں سے صرف 1 ؎۔ قرطبی ص 052 ج 31۔ 2۔ روح المعانی ص 543 ج 02۔ 3۔ مظہری ص 341 ج 7 ۔ 4۔ معالم التنزیل ص 621 ج 3 ، روح المعانی ص 45 ج (فیاض) ایک کامیاب ہوسکا ۔ جب کہ دو ناکام ہوگئے۔ مسلم شریف میں یہ روایت بھی آتی ہے کہ کوئی شخص سفر پر جا رہا تھا ۔ اللہ نے ایک فرشتے کو انسانی شکل میں بھیجا ، جس نے اس شخص سے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو ؟ کہا ایک شخص کی ملاقات کے لیے جا رہا ہوں ۔ فرشتے نے پوچھا ، کیا اس شخص نے تم پر کوئی احسان کیا ، یا تمہارا اس کے ساتھ کوئی مفاد وابستہ ہے ، اس شخص نے بتایا کہ نہ تو اس شخص نے مجھ پر کوئی احسان کیا ہے اور نہ ہی مجھے اس سے کوئی دنیاوی عرض ہے ۔ میں تو اسے نیک آدمی سمجھ کر محض اللہ کی رضا کی خاطر اس کی ملاقات کے لیے جا رہا ہوں ۔ اس پر فرشتے نے کہا کہ میں بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا ہوں ۔ وہ خداوند کریم جس کی محبت اور رضا کے لیے تم نے یہ سفر اختیار کیا ہے ، تو میں تم کو خوش خبری سناتا ہوں کہ جس طرح تم اللہ کے اس نیک بندے سے محبت کرتے ہو ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی تم سے محبت کرتا ہے۔ بہرحال مفسرین 1 ؎ اس بات پر متفق ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کی طرف وحی یہ تو طبیعت کے ذریعے تھی ، یا اللہ نے انسانی شکل میں کوئی فرشتہ بھیج کر بات سمجھا دی یا پھر خواب کے ذریعے مطلع کردیا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی دریا بردگی وحی 2 ؎ یہی تھی کہ بچے کو دودھ پلاتی رہو اور اگر کوئی زیادہ خطرہ محسوس کرو تو اسے دریا میں بہا دینا ، غم نہ کرنا ، ہم بچے کو دوبارہ تیری طرف لوٹا دیں اور اسے بنائیں گے ۔ تفسیری 3 ؎ روایات میں آتا ہے کہ آپ کی والدہ نے تین ماہ تک موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے گھر میں رکھ کر دودھ پلایا ۔ جب فرعون کے گماشتوں کی گھر گھر تلاشی کا خطرہ بڑھ گیا تو آپ نے وحی کے مطابق موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا برد کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔ بائبل کی روایت کے مطابق آپ نے سر کنڈے کی ٹوکری بنائی اور اس میں رال لگا کر اس کے سوراخ بند کردیے تا کہ اس میں پانی داخل نہ ہو سکے۔ بعض روایات میں صندوق کا ذکر ملتا ہے کہ انہوں نے بچے کو صندوق میں بند کر کے دریا کی لہروں کے سپرد کردیا ۔ یہ صندوق بہتا ہوا فرعون کے محل کے سامنے پہنچا ، بائبل کی روایت یہ ہے۔ 1 ؎۔ روح المعانی ص 54 ج 2 ۔ 2 ؎۔ در منثور ص 021 ج 5۔ 3 ؎ مظہری ص 441 ج 7 ( فیاض) کہ فرعون کی بیٹی اپنی سہیلیوں وہاں موجود تھی جنہوں نے بہتے ہوئے صندوق کو نکلوایا ۔ تا ہم قرآن کے الفاظ بتاتے ہیں کہ بچے کو فرعون کی بیوی وساطت سے اٹھایا گیا ۔ یہاں پر الفاظ یہ ہیں فالتقطہ ال فرعون پس اٹھالیا اس بہتے ہوئے صندوق کو فرعون کے گھر والوں نے لیکون لھم عدوا و حزنا تا کہ ہوجائے یہ بچہ ان کے لیے دشمن اور غم کا باعث ۔ ان الفاظ سے بھی کچھ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ یہ بچہ انہوں نے دشمن سمجھ کر تو نہیں اٹھایا ، بلکہ جیسا کہ آگے آ رہا ہے ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ شاید یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا ہم اسے بیٹا بنا لیں ۔ دراصل لیکون کا لام لام علت نہیں بلکہ لام معاقبت ہے اور مطلب یہ ہے نتیجے کے طور پر یہ بچہ فرعون کا دشمن اور اس کے لیے باعث غم بنا ۔ اس کی مثال عربی محاورے میں بھی ملتی ہے جیسے کہتے ہیں لدواللموت وابنو ا للخراب یعنی بچے جنو موت کے لیے اور عمارات تعمیر کرو بربادی کے لیے ۔ حقیقت یہ ہے نہ تو لوگ بچے مرنے کے لیے جتنے ہیں اور نہ ہی عمارتیں مہندم ہونے کے لیے بناتے ہیں ۔ البتہ جملے کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی بچہ پیدا ہوگا اسے ایک نہ ایک دن مرنا ہے اور جو بھی عمارت تعمیر ہوگی وہ بہر چال ٹوٹ پھوٹ جائے گی ۔ تو یہاں بھی مطلب یہ ہے کہ انہوں نے بہتے ہوئے بچے کو اٹھا تو لیا مگر بالآخر وہ ان کا دشمن ثابت ہوا اور ان کے لیے غم کا باعث بنا ۔ ایسی ہی مثال قرآن پاک میں بھی ملتی ہے۔ سورة الاعراف میں اللہ کا فرمان ہے وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ (آیت : 971) ہم نے بہت سے جنوں اور انسانوں کو جہنم کے لیے پیدا کیا ۔ یہاں بھی یہ ظاہری مفہوم اور نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ جنوں اور انسانوں کی کثیر تعداد جہنم میں جائے گی ۔ فرمایا ان فرعون وھامن وجنود ھما کانوا خطین بیشک فرعون ، اس کا وزیر ہامان اور ان دونوں کے لشکر خطا کار تھے ، ان کی پالیسی ہی غلط تھی ۔ اور بچے کو اٹھا لینے میں بھی انہوں نے غلط کی ۔ وہ اس سے مفاد وابستہ کیے بیٹھے تھے ، مگر اللہ نے اسی کو ان کی تباہی کا ذریعہ بنا دیا۔ ویسے بھی فرعون اور انس کے حواری سخت گناہ گار اور مجرم تھے۔ اللہ نے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے محل میں فرعون کے محل میں جب صندوق کو کھولا گیا تو اس سے بڑا پیار بچہ برآمد وقالت امرت فرعون جسے دیکھ کر فرعون کی بیوی پکار اٹھی ۔ قرت عین لی ولک اے فرعون ! یہ تو میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ مفسرین 1 ؎ لکھتے ہیں کہ اس کے جواب میں فرعون نے کا کہ یہ بچہ تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگا ۔ میری آنکھوں کی نہیں ۔ فرعون کے دل میں یہی بات آئی کہ کسی اسرائیلی نے اس بچے کو قتل سے بچانے کے لیے دریا میں بہا دیا ہے ، لہٰذا اسے قتل کردینا چاہئے ۔ مگر بیوی نے سفارش کی ۔ لا تقتلوہ اسے قتل نہ کرو ۔ یہ تو بڑا پیارا بچہ ہے ۔ عسی ان ینفعنا ونتخذ ہ ولدا شاید کہ یہ ہمیں فائدہ دے یا ہم اسے بیٹا بنا لیں ۔ مگر اللہ نے فرمایا وھم لا یشعرون وہ حقیقت حال کو نہیں جانتے تھے کہ آگے چل کر ان کے ساتھ کیا معاملہ پیش آنے والا ہے۔ فرعون 2 ؎ کی بیوی آسیہ بنت مزاحم ابن عبید ابن بریان سلیم الفطرت اور ایماندار خاتون تھی ۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کا تعلق اسرائیلی خاندان سے تھا ، مگر صحیح بات یہ ہے کہ یہ بھی فرعون کے خاندان سے تھی ۔ اس نے بھی فرعون کے بڑے مظالم برداشت کیے تو اللہ نے اسے صدیقہ کا درجہ دیا ۔ بہر حال اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کی من موہنی شکل و صورت دیکھی تو اس کے دل میں محبت بھر آئی۔ سورة طہٰ میں ہے وَاَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْج وَلِتُصْنَعَ عَلٰی عَیْنِیْ (آیت : 93) اے موسیٰ ! میں نے تم پر اپنی محبت ڈال دی جو دیکھتا تھا فریفتہ ہوجاتا تھا اور اس لیے کہ تم میری آنکھوں کے سامنے پرورش پائو ، غرضیکہ فرعون کی بیوی نے بچے کو قتل نہ کر نیکی سفارش کی ۔ ام موسیٰ کی بیقراری بچے کو دریا میں بہا دینے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کی کیفیت یہ ہوئی۔ واصبح فواد ام موسیٰ فرعا ً د اس کا دل صبر سے فارغ ہوگیا یعنی بقرار 1 ؎۔ ابو سعود ص 841 ج 4 ۔ 2 ؎۔ مظہری ص 641 ج 7 و روح المعانی ص 84 ج 03 (فیاض) ہو گیا ۔ یہ انسانی مزاج اور ماں کی مامتاکا تقاضا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے بچے کو دریا کی لہروں کے سپرد کیا مگر دل بےقرار ہوگا کہ نامعلوم بچے کے ساتھ کیا معاملہ پیش آنے والا ہے۔ اگرچہ اللہ کی طرف سے الہام ہوچکا تھا کہ خوف اور غم نہ کھائو ، ہم بچے کو تمہاری طرف لوٹا دیں گے ۔ مگر دل بیقرار کو قرار کہاں آتا ان کی حالت یہ ہوچکی تھی ان کا دت لتبدی بہ قریب تھا کہ وہ راز لو فاش کردیتی مگر اللہ نے فرمایا لو لا ان وبطنا علی قلبھا اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ کرتے یہ بھی اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی تھی کہ اس نے امر موسیٰ کے دل کو قرار بخشا ، ورنہ سارا معاملہ ہی الٹ پلٹ ہوجاتا ۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تائید کے بغیر کوئی بھی انسان بذاتہٖ کمال کو نہیں پہنچ سکتا ۔ اسی لیے اہل ایمان ہمیشہ یہی دعا مانگتے ہیں 1 یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دن کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔ 2 ؎ صرف قلبی لی صعتک میرے دل کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔ بہر حال فرمایا کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے دل کو مضبوط کیا ۔ لتکون من المومنین تا کہ وہ ایمان والوں میں سے ہو ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے راز کو فارش نہ کیا اور اس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کی پرورش فرعون کے گھر میں ہوئی اور وہ تیس سال تک وہاں رہے۔ اس کے بعد اگلے واقعات میں آئے ہیں۔ 1 ؎۔ ترمذی ص 705۔ 2 ؎۔ حصن حصین ص 374 ( فیاض)
Top