Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 116
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَنْ تُغْنِیَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْئًا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : کفر کیا لَنْ تُغْنِىَ : ہرگز کام نہ آئے گا عَنْھُمْ : ان سے (کے) اَمْوَالُھُمْ : ان کے مال وَلَآ : اور نہ اَوْلَادُھُمْ : ان کی اولاد مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے ( آگے) شَيْئًا : کچھ وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ اَصْحٰبُ النَّارِ : آگ (دوزخ) والے ھُمْ : وہ فِيْھَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
بیشک وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ، ہرگز کام نہیں آئیں گے ان کے مال اور نہ ان کی اولادیں اللہ کے سامنے کچھ بھی ، اور یہی لوگ دوزخ والے ہیں ، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے۔
ربط آیات : اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کی عداوت کا ذکر کر کے ان کی مزمت بیان فرمائی۔ پھر فرمایا ان میں سارے کے سارے برابر نہیں ہیں ، بلکہ بعض اہل کتاب منصف مزاج بھی ہیں ، جو اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں ، نیکی کا حکم کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کی قدر کرتا ہے ، اور تمام متقیوں کی نیت ، ارادے اور اعمال کو بھی جانتا ہے۔ اب آج کے درس میں اللہ تعالیٰ نے کفر کرنے والوں کی مذمت بیان کی ہے پہلے اہل کتاب کی مذمت بیان ہوئی ہے اور وہ وجوہات بھی بیان ہوئی ہیں جن کی وجہ سے وہ سرکشی کرتے تھے۔ پھر ان میں سے بعض کی مدح کا تذکرہ ہوا ہے اور اب کفر کرنے والوں کی مذمت بیان ہورہی ہے۔ مال و اولاد کا فتنہ : ارشاد ہوتا ہے ان الذین کفروا وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ، ایسے لوگ خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرکین میں سے ، سب کا ایک ہی معاملہ ہے۔ تاہم اس آیت میں اہل کتاب کی بات چل رہی ہے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان قبول نہ کیا ، توھید کو اختیار نہ کیا ، حضور خاتم النبیین (علیہ السلام) کی رسالت کا انکار کیا اور ایمان کے دیگر اجزا کی بھی تصدیق نہی کی ، ان کے متعلق فرمایا لن تغنی عنھم اموالھم ولا اولاد ھم من اللہ شیئا ایسے لوگوں کے مال اور اولاد اللہ کے ہاں کچھ کام نہ آئیں گے۔ یہ چیزیں انہیں اللہ کے غضب سے نہ بچا سکیں گی۔ دنیا میں انسان بعض اوقات مال کے زور پر بچ جاتے ہیں اور بسز اوقات اولاد بھی بچاؤ کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ مگر اللہ کی بارگاہ میں یہ دونوں چیزیں کام نہ آئیں گی۔ عام طور پر یہ مشاہدہ میں آیا ہے کہ اکثر لوگ انہی دو چیزوں یعنی مال اور اولاد کی وجہ سے گمراہی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ قرآن پاک میں دوسرے مقام پر موجود ہے " انما اموالکم واولادکم فتنۃ " بیشک تمہارے مال اور اولاد فتنہ ہیں۔ فتنہ سے مراد آزمائش ہے۔ انسان ان چیزوں کی محبت میں مبتلا ہو کر ایمان اور آخرت کو فراموش کر جاتے ہیں ، حلال و حرام کی حدود کو توڑتے ہیں ، اور اسی طرح مال اور اولاد ان کے لیے ذریعہ آزمائش بن جاتے ہیں۔ پھر جب اس آزمائش پر پورا نہیں اترتے تو ان پر وبال آجاتا ہے۔ دوسرے مقام پر فرمایا وما اموالکم ولا اولادکم بالتی تقربکم عندنا زلفی تمہارے مال اور اولاد تمہیں خدا کا قرب نہیں دلا سکتے۔ قرب الہی تو ایمان ، توحید اور اعمال صالحہ سے حاصل ہوتا ہے۔ مگر لوگ اس چیز کو بھول کر مال و اولاد کی محبت میں جائز اور ناجائز کی تمیز نہیں رکھتے۔ لہذا ان کو اللہ کا قرب حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس واسطے یہ چیزیں اللہ کے ہاں کچھ کام نہ آئیں گی ، حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ اولادانسان کے حق میں بخل اور بزدلی کا باعث ہے۔ اسی طرح انسان مال خرچ نہیں کرتا اور جہاد میں شریک نہیں ہوتا کہ اولاد کی حفاظت کون کرے گا۔ اسی کی خاطر نیکی کے دوسرے کاموں سے بھی محروم رہ جاتا ہے۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے۔ ھضور (علیہ السلام) نے فرمایا لکل امۃ فتنۃ ہر امت کے لیے ایک ضاص فتنی ہوتا ہے وفتنۃ امتی المال اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔ مال کی محبت کی وجہ سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ صحیحین کی روایت میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے : ترجمہ : مجھے تم پر فقر کا خوف نہیں۔ مجھے تمہارے متعلق یہ ڈر ہے۔ کہ تم پر دنیا وسیع کردی جائے گی۔ جس طرح تم سے پہل لوگوں پر کی گئی ، پھر تم اس میں رغبت کرنے لگو گے جس طرح ان لوگوں نے کی ، پھر وہ تم کو ہلاک کردے گی جس طرح پہلے لوگوں کو ہلاک کیا۔ مقصد یہ کہ دنیا کے معاملے میں تم ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنے کی کوشش کروگے اور پھر وہ تم کو ہلاک کردے گی۔ اسی لیے فرمایا کہ میری امت کا خاص فتنہ مال ہے۔ مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے ، کہ مال انسان کا اچھا ساتھی ہے۔ بشرطیکہ وہ اس میں سے اللہ اور اس کے بندوں کا حق ادا کرے۔ اور اگر حق ادا نہیں کرتا۔ تویہی مال اس کے لیے وبال جان ہے۔ مال کی جتنی بہتات ہوگی ، آزمائش بھی اتنی ہی بڑی ہوگی۔ فتنے بھی اتنے ہی زیادہ برپا ہوں گے۔ مال کی وجہ سے ہی اسلام کے نام لیوا برائی اور عیاشی میں مبتلا ہیں۔ فضول امور میں خرچ میں دوسری اقوام سے آگے ہیں۔ دولت تو ہے مگر صحیح جگہ پر خرچ نہیں ہوتی غلط جگہ پر خرچ ہو کر فتنہ بن جاتی ہے۔ حیاداری : اخلاق کے متعلق بھی حضور ﷺ کا ارشاد ہے ان لکل دین خلقت ہر دین کا کوئی مخصوص اخلاق ہوتا ہے وخلق الاسلام الحیاء اور اسلام کا خلق حیا ہے۔ جب تک لوگوں میں حیا داری موجود ہے ، اخلاق موجود ہے۔ جب حیا نہ رہی تو اخلاق کا جنازہ نکل گیا۔ صحیح بخاری اور موطا امام مالک وغیرہ میں پہلے انبیاء کی تعلیم سے یہ بات اخذ کی گئی ہے اذا لم تسحی فاصنح ماشئت جب حیا کا دامن چھوڑ دیا جو چاہو کرتے پھرو ، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ مصری شاعر شوقی نے کہا ہے انما الامم با لاخلاق مابقیت فاذاذھب اخلاقھم ذھبوا امتیں اخلاق کی وجہ سے زندہ رہتی ہیں۔ جب ان میں اخلاق ختم ہوجائے تو امتیں بھی مٹ جاتی ہیں۔ ایسی صورت میں کسی امت کا زندہ رہنا یا ختم ہوجانا کچھ مفید نہیں رہتا۔ نبی آخر الزمان (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں کا اخلاق نہایت اعلی درجے کا تھا ، یہی وجہ ہے کہ انہیں دنیا پر غلبہ حاصل ہوا اور انہوں نے اس زمین پر نیکی کو رائج کیا۔ غرضیکہ اللہ نے فرمایا انسان کے حق میں مال اور اولاد دو بڑی آزمائشیں ہیں۔ لوگ انہی کی وجہ سے ایمان اور نیکی سے محروم ہوتے ہیں۔ مگر یہ دونوں چیزیں الہ کے ہاں کچھ کام نہ آئیں گی۔ فرمایا ان چیزوں سے حد سے زیادہ محبت کرنے والوں کا انجام یہ ہوگا واولئک اصحب النار ان لوگوں کا ٹھکانا دوزخ میں ہوگا۔ ھم فیھا خلدون اور اسی میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ کفار کا مہلک انفاق : اگلی آیت میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ کفار اس دنیا میں جو مال خرچ کرتے ہیں ، اس کی کیا حیثیت ہے۔ کیا اللہ کے ہاں اس قسم کے خرچ کا کوئی فائدہ ہوگا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ بات ایک مثال کے ذریعے سمجھائی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ مثل ماینفقون فی حذہ الحیوۃ الدنیا مثال اس کی جو خرچ کرتے ہیں ، اہل ایمان تو اس دنیا میں جو کچھ خرچ کرتے ہیں ، وہ اللہ کی رضا کے لیے کرتے ہیں ، اور اس کا بدلہ اللہ کے ہاں یقینا بہتر ملے گا۔ مگر کافروں کے ساتھ معاملہ کیسے ہوگا برے کاموں می خرچ کرنے کے علاوہ وہ لوگ بعض اوقات اچھے کاموں پر بھی خرچ کرتے ہیں۔ غریبوں کی امداد کرتے ہیں ، سکول اور ہسپتال قائم کرتے ہیں ، یتیم خانے تعمیر کرتے ہیں ، پل اور سرائیں بنواتے ہیں اور اپنے اپنے مذاہب کے مطابق نیکی کے دوسرے کاموں میں روپیہ صرف کرتے ہیں۔ تو ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے خرچ کیے ہوئے کی مثال ایسی ہے۔ کمثل ریح فیھا صر جیسے ہوا ہو جس میں سخت سردی ہو۔ اصابت حرث قوم ظلموا انفسھم یہ سرد ہوا ایسی قوم کی کھیتی پر آئی ہو ، جس نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔ کھیت پک کر تیار ہو رہا ہے ، اناج سے بھرا پڑا ہے۔ خوب لہلہا رہا ہے۔ اتنے میں سخت ٹھنڈی ہوا آتی ہے فاھلکتہ اس کو ہلاک کردیتی ہے۔ اچھی بھلی کھیتی دیکھتے ہی دیکھتے تباہ و برباد ہوجاتی ہے اور اس کے مالک منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ فرمایا کفر کرنے والوں کے خرچ کی مثال ایسی ہی ہے۔ وہ اس دنیا میں رفاہ عامہ کے کاموں پر خرچ کر کے خوش ہو رہے ہیں کہ ان کا خرچ کیا ہوا مال انہیں بہت فائدہ دے گا۔ مگر حقیقت میں اللہ کے ہاں اللہ کے ہاں اس خرچ کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ جس طرح کھیتی کا مالک آس لگائے بیٹھا تھا۔ مگر یخ ہوا نے اسے برباد کر کے رکھ دیا ، اسی طرح مال خرچ کرنے والے کافر امید کریں گے کہ مال خرچ کرنے کے عوض ان کو اجر عظیم ملے گا ، مگر ان کا یہ سارا کیا کرایا یکدم ضائع ہوجائے گا۔ اور ان کے لیے کچھ مفید نہ ہوگا۔ دنیا میں شہرت : فرمایا وما ظلمھم اللہ تعالیٰ نے آخرت میں ایسے لوگوں کو اجر سے محروم کر کے ان پر کوئی زیادتی نہیں کی۔ بلکہ ولکن انفسکم یظلمون انہوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آخرت میں عمل کی قبولیت کے لیے ایمان ، سحیح عقیدہ اور اعمال صلحہ کی شرط لگائی ہے۔ دوسرے مقام پر فرمایا " فمن یعمل من الصلحت وھو مؤمن " اجر اس کو ملے گا۔ جو ایمان لانے کے بعد اعمال صالحہ انجام دیگا ، جس کا ایمان ہی درست نہیں ہے جس کا عقیدہ ہی صحیح نہیں۔ جو توحید پر قائم نہیں ، اس کے نیک اعمال بھی آخرت میں کچھ کام نہ آئیں گے۔ ایسے لوگوں نے ند عقیدگی اختیار کر کے اپنے اندر مہلک مادہ پیدا کرلیا ہے ، جو ان کے صحیح اعمال کو بھی ضائع کر رہا ہے۔ البتہ ان کے دنیا میں اچھے کام ان کے لیے دنیا میں ہی عزت ، شہرت ، وجاہت اور وقار کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہ چیزیں تو ان کو دنیا میں ہی حاصل ہوجاتی ہیں ، لہذا آخرت میں ان کے لیے کوئی حصہ باقی نہیں رہتا۔ کافروں کے علاوہ منافقوں کا بھی یہی حال ہے۔ سورة توبہ میں موجود ہے کہ منافقوں کا خرچ کردہ مال ان کے لیے کیوں مفید نہیں ہوتا ، اللہ تعالیٰ اس کو کیوں قبول نہیں کرتے ، اس لیے کہ ان کے دل و دماغ ناپاک ہیں ، ان کے دل نفاق سے بھرے ہوئے ہیں اور ان کے اخلاق بگڑ چکے ہیں۔ یہی حال کفر کرنے والوں کا ہے ، کہ ان کا عقیدہ فاسد ہے۔ اس لیے ان کے نیکی کے کام بھی آخرت میں بےسود ہوں گے۔ البتہ اس دنیا میں ان کا بدلہ انہیں عزت و شہرت کی صورت میں مل جائے گا۔ برائی کا اثر نیکی پر : کفر ، شرک اور بعض گناہ ایسے ہوتے ہیں ، جن کا اثر انسان کی نیکیوں پر پڑتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا ، جو شضص ایک دفعہ شراب پی لیتا ہے ، چالیس دن تک اس کی نیکیاں یعنی نماز وغیرہ قبول نہیں ہوتی اگرچہ اس کے ذمہ سے نماز ادا تو سمجھی جائے گی ، مگر وہ بارگاہ الہی میں اس وقت تک قبول نہیں ہوگی جب تک شرابی صدق دل سے توبہ نہ کرلے۔ ایک اور صحیح حدیث میں حضور نبی کریم صلہ اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ، جو شخص حرام کا ایک لقمہ پیٹ میں ڈالتا ہے ، چالیس دن تک اس کی عبادت قبول نہیں ہوتی ، حرام کا اتنا شدید اثر ہوتا ہے۔ ہاں اگر توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے ہیں۔ بہرحال فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کفر کرنے والوں پر ظلم نہیں کیا۔ بلکہ اللہ نے تو ان پر احسان کیا ، جسم دیا ، صحت و توانائی دی ، حواس ظاہرہ اور باطنہ سے نوازا ، عقل و شعور جیسی نعمت دی ، انبیاء مبعوث فرمائے ، کتابیں نازل فرمائیں تاکہ انسان ہدایت کا راستہ اختیار کریں۔ ان تمام اسباب کی فراہمی کے بعد بھی اگر کوی کفر کا راستہ اختیار کرتا ہے تو وہ خود اس کا ذمہ دار ہے۔ اللہ نے ان پر زیادتی نہیں کی۔ کیونکہ " وما ربک بظلام للعبید " اور اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا " وما اللہ یرید ظلما للعباد " اللہ تو اپنے بندوں پر زیادتی کرنے کا ارادہ بھی نہیں فرماتے۔ یہ تو خود انسان ہیں ولکن انفسھم یظلمون جو خود اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ اپنے ایمان اور عقیدے کو خراب کرتے ہیں برے اعمال انجام دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا۔ یہ برے اعمال ان کی اپنی کمائی ہیں۔ اب اس کا بھگتان کرو۔ اگر نیکی انجام دی ہے۔ تو اللہ فرمائے گا کہ شکر کرو کہ میں نے تمہیں نیکی کی توفیق بخشی جس کا آج اچھا بدلہ مل رہا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے کافروں خرچ کردہ مال کی حیثیت کو ایک مثال کے ذریعے واضح کرکے بات سمجھادی کہ ایمان کے بغیر کوئی عمل اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ہوگا۔
Top