Jawahir-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 116
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَنْ تُغْنِیَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَیْئًا١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : کفر کیا لَنْ تُغْنِىَ : ہرگز کام نہ آئے گا عَنْھُمْ : ان سے (کے) اَمْوَالُھُمْ : ان کے مال وَلَآ : اور نہ اَوْلَادُھُمْ : ان کی اولاد مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے ( آگے) شَيْئًا : کچھ وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ اَصْحٰبُ النَّارِ : آگ (دوزخ) والے ھُمْ : وہ فِيْھَا : اس میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہیں گے
وہ لوگ جو کافر ہیں ہرگز کام نہ آوینگے ان کو ان کے مال اور نہ اولاد اللہ کے آگے کچھ174 اور وہی لوگ رہنے والے ہیں آگ میں دوزخ کی وہ اس آگ میں ہمیشہ رہیں گے175
174 ۔ حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے مومنین اہل کتاب کا ذکر فرمایا ان کی خوبیاں گنائیں اور انہیں بشارت اخروی سے نوازا اب یہاں سے کفار اہل کتاب کا ذکر کر کے انہیں اخروی تخویف فرمائی۔ قال مقاتل لما ذکر تعالیٰ مومنی اھل الکتاب ذکر کفارھم وھو قولہ ان الذین کفروا (قرطبی ص 177 ج 4) اور کفار اہل کتاب سے یہاں مراد عام ہے خواہ عوام ہوں یا خواص، مریدین اور متبعین ہوں یا ان کے علماء سجادہ نشین اور متبوعین جس طرح مریدین اپنے پیروں اور سجادہ نشینوں پر خرچ کرتے ہیں۔ ان کی خدمت میں نذرانے اور شیرینیاں پیش کرتے اور ان نذرانوں کے ذریعے اپنے پیروں سے آخرت میں نفع کی امید رکھتے ہیں اور اس توقع میں رہتے ہیں کہ ان نیازوں اور نذرانوں کے عوض ان کے پیر قیامت کے دن ان کی سفارش کریں گے اور خدا کے عذاب سے ان کو چھڑا لیں گے اسی طرح پیر اور سجادہ نشین بھی دنیا میں زعم خود اپنی دولت نیک کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔ مثلاً بزرگوں کے مزارات اور ان کی خانقاہیں تعمیر کراتے ہیں مریدوں اور مزارات پر نذرانے لانے والوں کے لیے سرائیں بنواتے اور لنگر جاری کرتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہودیوں کے ان مولویوں اور سجادہ نشینوں اور اسی طرح ان کے مریدوں کا اس طرح دنیا میں دولت خرچ کرنا بالکل بیکار ہے اس کا ان کو سر مو فائدہ نہیں پہنچے گا کیونکہ انفاق اور دوسرے اعمال صالحہ کا آخرت میں مفید اور نفع بخش ہونا ایمان خالص اور توحید پر موقوف ہے اور یہ شرک اور کفر میں منہمک ہیں۔ 175 لہذا انجام کار ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور یہ خلود فی النار ان کے کفر وشرک پر قائم رہنے کا نتیجہ ہے۔ اس آیت سے معتزلہ کے اس خیال کی تردید ہوتی ہے کہ فساق المؤمنین مخلد فی النار ہوں گے۔ کیونکہ اُولئِکَ اَصْحَابُ النَّارِ کی ترکیب مفید حصر ہے تو مطلب یہ ہوا کہ صرف کفار ہی ایسے جہنمی ہیں جو جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور اس سے کبھی نہیں نکلیں گے تو معلوم ہوا کہ مؤمن گنہگار جہنم میں ہمیشہ نہیں رہیں گے جیسا کہ معتزلہ کا خیال ہے۔ ولما افادت ھذہ الکلمۃ معنی الحصر ثبت ان الخلود فی النار لیس الا للکافر (کبیر ص 49 ج 3) ۔
Top