Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 10
وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ
وَلَقَدْ : اور البتہ اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑا اٰلَ فِرْعَوْنَ : فرعون والے بِالسِّنِيْنَ : قحطوں میں وَنَقْصٍ : اور نقصان مِّنَ : سے (میں) الثَّمَرٰتِ : پھل (جمع) لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَذَّكَّرُوْنَ : نصیحت پکڑیں
اور البتہ تحقیق ہم نے پکڑا آل فرعون کو قحطوں کے ساتھ اور پھلوں کی کمی کے ساتھ تاکہ وہ نصیحت پکڑیں
ربط آیات گزشتہ درس میں یہ بیان ہوچکا ہے کہ فرعون اور اس کے سرداروں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے مقابلہ کے لیے جادوگروں کو اکٹھا کیا تو وہ حاضر آگئے اور موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے اسکے بعد فرعون کے مصاحبوں نے ابھارا کہ اگر موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے پیروکاروں کو یونہی چھوڑ دیا گیا اور ان پر پابندیاں عائد نہ کیں تو یہ زمین میں فساد پھیلائیں گے اور تجھے اور تیرے معبودوں کو موقوف کردیں گے فرعون نے کہا کہ ہم انہیں وہی سزا دیں گے جو پہلے دیا کرتے تھے یعنی ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھ کر انہیں لونڈیاں بنائیں گے اور ان سے خدمت لیں گے چناچہ جب بنی اسرائیل پر مصائب کا دور شروع ہوا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی مظلوم قوم کو نصیحت کی کہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو اور تکالیف پر صبرو کرو یہ زمین اللہ تعالیٰ کی ہے وہ جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے اس نے اس دور میں آزمائش کے طور پر فرعون کو زمین کا وارث بنا رکھا ہے مگر نیک انجام بالآخر متقیوں کا ہوگا بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے شکوہ کیا کہ آپ کے آنے سے پہلے بھی ہم مصائب کا شکار رہے اور آپ کے آنے کے بعد بھی ہمارے آرام میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوا ہے اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو تسلی دی کہ امید ہے کہ تمہارا پروردگار تمہارے دشمن کو عنقریب ہلاک کردے گا اور زمین کی نیابت تمہیں بخش دے گا اس کے بعد تمہارے اعمال بھی خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ہوں گے اور تمہاری بھی آزمائش ہوگی۔ آزمائش کا اصول گزشتہ دروس میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بیان ہوچکا ہے کہ آزمائش کے لیے ہم کسی قوم پر پہلے سختی ڈالتے ہیں اور پھر آسودگی یہاں تک کہ جب وہ بالکل غافل ہوجاتے ہیں تو ہماری گرفت آجاتی ہے آل فرعون کو بھی اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقوں سے آزمایا جب انہیں اقتدار دیا تو ان کا ظلم و ستم انتہا کو پہنچ گیا اب ان کے مصائب کے دور کی ابتداء ہوگئی اللہ تعالیٰ نے انہیں طرح طرح کی سزائوں میں مبتلا کیا جس سے مقصود یہ تھا کہ کسی طرح یہ لوگ سمجھ جائیں اور بنی اسرائیل پر زیادتی کرنا چھوڑ دیں اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ پر چند نشانیاں بھی ظاہر کیں شاید کہ ان نشانیوں کو دیکھ کر ہی سمجھ جائیں مگر ان کی حالت یہ تھی کہ جب کوئی نشانی دیکھتے تو قدرے نرمی اختیار کرلیتے مگر جب پھر ذرا آسانی آتی تو انکار کردیتے بلکہ پہلے سے زیادہ متکبر ہوجاتے آخر کار وہ وقت بھی آیا جب اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک ہی کردیا۔ قحط سالی ارشاد ہوتا ہے ولقد اخذنا اٰل فرعون باسنین البتہ تحقیق ہم نے پکڑا آل فرعون کو قحطوں کے ساتھ۔ آل فرعون سے مراد خود فرعون اور اس کے حواری ہیں اور سنین جمع ہے سن کی جس کے معنی سال ہوتا ہے قحط اس دوریا اس زمانہ کو کہتے ہیں جب بارش بالکل نہیں ہوتی یا ہوتی ہے تو لوگ اس سے مستفید نہیں ہوسکتے اور پھر اس کے نتیجے میں فصل اور پھل وغیرہ پیدا نہیں ہوتے اور اشیائے خوراک کی قلت واقع ہوجاتی ہے چونکہ ایسے سالوں کو تاریخ میں خصوصاً یاد رکھا جاتا ہے اس لیے یہاں پر سنین سے عام سال نہیں بلکہ قحط کے سال مراد لیے گئے ہیں تو فرمایا ہم نے فرعونیوں کو قحط میں مبتلا کیا ونقص من الثمرات اور پھلوں کی قلت میں مبتلا کیا خشک سالی اور قلت اثمار دراصل ایک ہی چیز کے دو نام ہیں جب خشک سالی کا زمانہ آتا ہے تو ظاہر ہے پھل بھی پیدا نہیں ہوتے اور اگر ان دو چیزوں کو علیحدہ علیحدہ شمار کیا جائے تو خشک سالی یا قحط زیادہ تکلیف دہ چیز ہے جس سے انسان اور جانور سب متاثر ہوتے ہیں اور پھلوں کی قلت اس سے کم درجہ کی تکلیف ہے بعض دفعہ خشک سالی تو نہیں ہوتی مگر درختوں پر پھل ہی نہیں آتا تیز ہوائوں کی وجہ سے بور ضائع ہوجاتا ہے یا پھلوں کو ایسی بیماری لگ جاتی ہے کہ وہ استعمال کے قابل نہیں رہتے بہرحال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے نشانی کے طور پر آل فرعون کو قحط سالی اور قلت اثمار میں مبتلا کیا لعلھم یذکرون تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کل نو نشانیاں عطا کیں ولقد اتینا موسیٰ تسع ایت بینت (بنی اسرائیل) ان میں سے ایک نشانی یہ ہے دو پہلے بیان ہوچکی ہیں عصا اور یدبیضاء پانچ اسی درس میں آگے آرہی ہیں اور ایک نشانی طمس اموال سورة یونس میں مذکور ہے۔ خوشحالی پر اترانا اللہ نے فرمایا کہ ہماری اس نشانی سے فرعونیوں نے کوئی نصیحت نہ پکڑی بلکہ فاذا جاء تھم الحسنۃ جب ان کے پاس بھلائی آسودگی یا خوشحالی آتی تھی انہیں صحت و تندرستی حاصل ہوتی اناج اور پھلوں کی فراوانی ہوتی تو کہتے قالو لنا ھذہ یہ ہمارے لائق ہے ہمارا حق ہے ، ہمیں یہ خوشحالی ہونی چاہیے عام طور پر انسانی فطرت ایسی ہی ہے اللہ تعالیٰ نے عام لوگوں کو یہی حال بیان کیا ہے جب ان کے اسباب معیشت میں اضافہ ہوجاتا ہے رزق کی فراوانی ہوتی ہے تو وہ خدا کو بھول جاتے ہیں اور اپنے علم و ہنر پر اترانے لگتے ہیں خوشحالی کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنے کی بجاء وہ اسے اپنی سائنس اور ٹیکنالوجی اور اپنی منصوبہ بندی کامرہون منت تصور کرتے ہیں اور جب خدا تعالیٰ کی طرف سے گرفت آتی ہے تو پھر اپنی کوتاہیوں پر نگاہ کرنے کی بجائے خدا کا شکوہ کرنے لگتے ہیں گویا اللہ نے انہیں ان کی محنت اور علم و ہنر کا بدلہ نہیں دیا للہ نے فرمایا کہ فرعون اور اس کی قوم کا بھی یہی حال تھا کہ جب آسودگی آتی تو کہتے یہ ہماری محنت کا پھل ہے اور ہمیں ملنا چاہیے تھا۔ تنگدستی پر شگون وان تصبھم سیئۃ اور اگر انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ، تنگدستی میں مبتلا ہوجاتے یطیروا بموسیٰ ومن معد تو موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ شگون بدلیتے کہ ان کی وجہ سے ہم پر نحوست نازل ہورہی ہے حالانکہ یہ بالکل بےہودہ بات تھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھی تو صاحب ایمان تھے ان کی وجہ سے نحوست کیوں پڑتی ، نحوست تو کفر ، شرک اور بغاوت کی وجہ سے پڑتی ہے اور یہ چزیں فرعونیوں میں پائی جاتی تھیں مگر وہ اپنی اصلاح کرنے کی بجائے اللہ کے نیک بندوں کو مطعون کرتے کہ جب سے انہوں نے وعظ و نصیحت شروع کی ہے اس وقت سے ہم پر نحوست چھا گئی ہے قریش مکہ اور مشرکین عرب بھی حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ کے متعلق اسی قسم کا شگون بدلیتے تھے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے الطیرۃ شی ک یعنی شگون بدلینا شرک کی قسموں میں سے ایک قسم کا شرک ہے عرب لوگ پرندوں کو اڑا کر ان سے نیک یا بدشگون لیتے تھے یا اگر سامنے سے کوئی خلاف طبع جانور آجاتا تو اسے بھی شگون بد پر محمول کرتے البتہ نیک فال لینے کو حضور ﷺ نے پسند کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی اچھا لفظ یا اچھا نام سن کر انسان کی طبیعت خوش ہوجائے تو اسے وہ نیک فال سمجھے اس سے یہ مراد نہیں کہ قرآن پاک سے یا دیوان حافظ سے یا ہیر وغیرہ سے فال نکالے یہ ناجائز اور بدعت ہے اہل ایمان کو اس سے بچنا چاہیے اسی طرح نجوم ، کہانت ، دست شناسی رمل وغیرہ سب ناجائز ہیں اور ان کی کمائی بھی حرام ہے۔ فرمایا وہ لوگ اپنی بدبختی اور تنگدستی کو موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں کی نحوست خیال کرتے تھے مگر اللہ نے فرمایا الا انما طیرھم عنداللہ سنو ! ان کو شگون تو اللہ کے پاس ہے دراصل یہ شگون وغیرہ کچھ بھی نہیں تمام کام اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی قدرت نامہ کے مطابق وقائع ہوتے ہیں کسی کی خوشحالی یا تنگدستی میں موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں کا کیا تعلق ہے ؟ وہ تو اللہ کے نیک بندے ہیں ، نیکی کا راستہ بتاتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں وہ ناصح اور امین ہیں ہر ایک کے ساتھ خیر خواہی کا سلوک کرتے ہیں ان کی وجہ سے تو اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے اس کی برکات کا نزول ہوتا ہے نہ کہ نحوست پیدا ہوتی ہے فرمایا ولکن اکترھم لایعلمون مگر ان میں سے اکثر لوگ بےسمجھ ہیں یہ اپنی غلط ذہنیت کی وجہ سے نحوست اور بدشگونی کو نیک لوگوں کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ایمان لانے سے انکار ایک تر فرعونی موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کا شگون لیتے تھے اور دوسرا یہ بھی کہتے تے وقالو مھما تاتنا بہ من ایۃ لتسحرنا بھا کہ جب تو ہمارے پاس کوئی نشانی لائے گا جس کے ذریعے ہم پر جادو کردے فما نحن لک بمومنین تو ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے ان کی بدبختی کی انتہا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے لائے ہوئے معجزے کو جادو سے تعبیر کرتے اور کہتے کہ ہم اسے تسلیم نہیں کریں گے مشرکین مکہ بھی معجزات دیکھ کر اسے جادو کا نام دیتے تھے معجزے کے اثر کا تو انکار نہیں کرسکتے تھے۔ مگر تاویل یہ کرتے تے کہ جادو کے تحت ایسا ہوا ہے لہٰذا وہ بھی اسی وجہ سے ایمان لانے سے انکار کرتے تھے۔ آزمائش در آزمائش فرمایا جب فرعون اور اس کے حواری سرکشی میں حد سے بڑھ گئے فارسلنا علیھم الطوفان تو ہم نے ان پر طوفان بھیج دیا طوفان کا لفظ عام طور پر پانی کی بہتات پر بولا جاتا ہے جب بارش کی کثرت ہو یا دریا اور ندی نالے کناروں سے بہہ نکلیں جس کی وجہ سے لوگ گھروں میں محصور ہوجائیں یا پناہ لینے کے لیے محفوظ جگہوں پر جانا پڑے تو یہ طوفان کہلاتا ہے تاہم مجاہد کی روایت کے مطابق اموات کی کثرت کو بھی طوفان سے موسوم کیا جاتا ہے طاعون یا ہیضہ وغیرہ کی وبا پھیل جائے جس سے کثیر تعداد میں اموات واقع ہوں تو ایسے حادثہ کو بھی طوفان سے تعبیر کیا جاتا ہے تاہم عام طور پر پانی کی کثرت کو طوفان کہا جاتا ہے جیسا کہ نوح (علیہ السلام) کے زمانے میں آیا تھا۔ فرمایا ایک تو ہم نے ان پر طوفان بھیجا اور دوسرا والجراد ٹڈی دل کی آفت بھی مسلط کردی جب کسی علاقے میں ٹڈی دل کا حملہ ہوتا ہے تو تمام فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں ٹڈی دل سارا سبزہ چٹ کرجاتا ہے اس کے حملہ سے بچائو کے لیے حکومتی سطح پر تدابیر اختیار کرنا پڑتی ہیں پھر جس طرف ٹڈی دل کا رخ ہوا اس طرف کی حکومت کو قبل ازوقت مطلع کی جاتا ہے تاکہ وہ بھی حفاظتی تدابیر اختیار کرلیں تو جہاں ٹڈی دل نازل ہوتا ہے وہاں بھی قحط واقع ہوجاتا ہے کیونکہ یہ چھوٹے چھوٹے پرندے تمام فصلوں اور پھلوں کو کھا جاتے ہیں ہماری امت کے لیے ٹڈی بغیر ذبح کیے مردہ بھی حلال ہے حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ ہمارے لیے دو مردار حلال ہیں السمک والجراد یعنی مچھلی اور ٹڈی اور دو خون حلال ہیں الکبد والصلحال یعنی جگر اور تلی ، حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ کے ہمراہ ہم نے چھ یا سات غزدات میں ٹڈی دل کھایا۔ اللہ نے فرمایا کہ اس کے علاوہ ہم نے ان پر والقمل بھی ارسال کیا قمل کے مختلف معانی بیان ہوئے ہیں بعض نے اس سے جوئیں مراد لی ہیں جو انسانوں کے جسم میں پیدا ہوجاتی ہیں بعض نے چیچڑیاں کہا ہے جو جانوروں کو چمٹ جاتی ہیں اور بعض فرماتے ہیں کہ اس سے سسری یا گھن مراد ہے جو اناج کو کھا جاتا ہے پھر فرمایا والضفادع اور ہم نے مینڈک بھیجے والدم اور خون کی مصیبت میں گرفتار کیا فرمایا ایت مفصلت یہ سب علیحدہ علیحدہ نشانیاں ہیں جو ہم نے فرعون اور اس کی قوم پر بھیجیں تاکہ وہ نصیحت پکڑیں مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ پے درپے مصائب حضرت مولانا شیخ الاسلام (رح) لکھتے ہیں کہ یہ تمام نشانیاں اللہ تعالیٰ نے تھوڑے تھوڑے وقفے سے نازل کیں مگر وہ ایسے جرائم پیشہ اور متکبر لوگ تھے کہ کسی نے تسلیم نہ کیا حضرت سعید بن جبیرہ کی روایت میں آتا ہے کہ پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کیا کہ انہیں چھوڑ دو میں ان کو لے کر مصر سے چلا جاتا ہوں جب فرعون نے یہ مطالبہ نہ مانا تو اللہ تعالیٰ نے بارش کا طوفان بھیج دیا جب مسلسل بارش کی وجہ سے فصلیں اور پھل تباہ ہونے لگے انسانی اور حیوانی زندگی کو خطرہ لاحق ہوگیا تو فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمیں اس طوفان سے نجات دے اور ساتھ وعدہ بھی کیا کہ اگر طوفان ہٹ جائے گا تو میں بنی اسرائیل کو آزاد کرودں گا موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی اور بارش تھم گئی اور اللہ نے بارش کی زحمت کو رحمت میں بدل دیا اور خوب غلہ پیدا ہوا مگر فرعون اپنے وعدے پر قائم نہ رہا اس پر اللہ نے دوسرا وبال بھیجا جب فصل پک گئی تو اللہ نے ٹڈی دل بھیج دیا جس سے فصلوں اور پھلوں کی تباہی کا خطرہ پیدا ہوگیا فرعونی اس آفت سے گبھرا کر پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئے اور دعا کی درخواست کی کہ یہ مصیبت بھی ٹل جائے اور وعدہ کیا کہ اب کہ بنی اسرائیل کو ضرور آزاد کرودں گا موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر دعا کی تو یہ عذاب بھی ٹل گیا مگر فرعون اپنے وعدے کو پھر فراموش کرگیا پھر جب لوگ غلہ اپنے گھروں میں لے آئے تو اسے گھن لگ گیا اور سارا غلہ ضائع ہوجانے کا اندیشہ ہوگیا وہ لوگ پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئے آپ نے دعا کی اور یہ تکلیف بھی رفع ہوگئی مگر فرعونی اپنے وعدہ کو وفا نہ کرپائے پھر اللہ نے اس کثرت سے مینڈک بھیجے کہ ان کا کھانا پینا محال ہوگیا ہر برتن میں مینڈک نظر آتے تھے جب کھانا کھانے کے لیے منہ کھولتے تو مینڈک اچھل کر منہ کے اندر چلے جاتے ان کا کھانا پینا بدمزا ہوجاتا فرعونی پھر پریشان ہوگئے اور موسیٰ (علیہ السلام) سے عرض کیا کہ ہمیں اس مصیبت سے نجات دلوادیں ہم ضرور وعدہ پورا کریں گے ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی فرعونی مکر گئے تو اللہ تعالیٰ نے ایک اور عذاب بھیجا جس برتن میں پانی ڈالتے وہ خون بن جاتا برتن میں پڑا ہوا پانی نظر آتا مگر جب اسے استعمال کرنے لگتے یا پینے کے لیے منہ کی طرف بڑھاتے تو خون بن جاتا اب پیاس کی وجہ سے مرنے لگے تو اللہ نے فرمایا کہ ہم نے ان پر پے درپے عذاب نازل کیے مگر فاستکبرو وہ ہمیشہ تکبری ہی کرتے رہے انہوں نے کسی نشانی سے عبرت حاصل نہ کی وکانو قوماً مجرمین وہ بڑے گنہگار اور پاپی لوگ تھے اللہ نے ان کا یہ حال بیان کیا آگے مزید تفصیلات آرہی ہیں۔
Top