Mufradat-ul-Quran - Al-A'raaf : 45
الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ یَبْغُوْنَهَا عِوَجًا١ۚ وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ كٰفِرُوْنَۘ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يَصُدُّوْنَ : روکتے تھے عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَيَبْغُوْنَهَا : اور اس میں تلاش کرتے تھے عِوَجًا : کجی وَهُمْ : اور وہ بِالْاٰخِرَةِ : آخرت کے كٰفِرُوْنَ : کافر (جمع)
ان دونوں بہشتیوں اور دوزخیوں کے درمیان اعراف کا نام ایک دیوار ہوگی اور اعراف پر کچھ آدمی ہونگے جو سب کو ان کی صورتوں سے پہچان لیں گے تو وہ اہل بہشت کو پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو۔ یہ لوگ ابھی بہشت میں داخل تو نہیں ہونگے مگر امید رکھتے ہونگے۔
وَبَيْنَہُمَا حِجَابٌ۝ 0 ۚ وَعَلَي الْاَعْرَافِ رِجَالٌ يَّعْرِفُوْنَ كُلًّۢابِسِيْمٰىہُمْ۝ 0 ۚ وَنَادَوْا اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ اَنْ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ۝ 0 ۣ لَمْ يَدْخُلُوْہَا وَہُمْ يَطْمَعُوْنَ۝ 46 بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے حجب الحَجْب والحِجَاب : المنع من الوصول، يقال : حَجَبَه حَجْباً وحِجَاباً ، وحِجَاب الجوف : ما يحجب عن الفؤاد، وقوله تعالی: وَبَيْنَهُما حِجابٌ [ الأعراف/ 46] ، ليس يعني به ما يحجب البصر، وإنما يعني ما يمنع من وصول لذّة أهل الجنّة إلى أهل النّار، وأذيّة أهل النّار إلى أهل الجنّة، کقوله عزّ وجل : فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ ، وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید/ 13] ، وقال عزّ وجل : وَما کانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْياً أَوْ مِنْ وَراءِ حِجابٍ [ الشوری/ 51] ، أي : من حيث ما لا يراه مكلّمه ومبلّغه، وقوله تعالی: حَتَّى تَوارَتْ بِالْحِجابِ [ ص/ 32] ، يعني الشّمس إذا استترت بالمغیب . والحَاجِبُ : المانع عن السلطان، والحاجبان في الرأس لکونهما کالحاجبین للعین في الذّب عنهما . وحاجب الشمس سمّي لتقدّمه عليها تقدّم الحاجب للسلطان، وقوله عزّ وجلّ : كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ [ المطففین/ 15] ، إشارة إلى منع النور عنهم المشار إليه بقوله : فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید/ 13] . ( ح ج ب ) الحجب والحجاب ( ن ) کسی چیز تک پہنچنے سے روکنا اور درمیان میں حائل ہوجانا اور وہ پر وہ جو دل اور پیٹ کے درمیان حائل ہے اسے حجاب الجوف کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ ؛ وَبَيْنَهُما حِجابٌ [ الأعراف/ 46] اور ان دونوں ( بہشت اور دوزخ ) کے درمیان پر وہ حائل ہوگا ۔ میں حجاب سے وہ پر دہ مراد نہیں ہے جو ظاہری نظر کو روک لیتا ہے ۔ بلکہ اس سے مراد وہ آڑ ہے جو جنت کی لذتوں کو اہل دوزخ تک پہنچنے سے مانع ہوگی اسی طرح اہل جہنم کی اذیت کو اہل جنت تک پہنچنے سے روک دے گی ۔ جیسے فرمایا فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بابٌ باطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ ، وَظاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذابُ [ الحدید/ 13] پھر ان کے بیچ میں ایک دیوار گھڑی کردی جائے گی اس کے باطن میں رحمت ہوگی اور بظاہر اس طرف عذاب ہوگا ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَما کانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْياً أَوْ مِنْ وَراءِ حِجابٍ [ الشوری/ 51] ، اور کسی آدمی کے لئے ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اس سے بات کرے مگر الہام ( کے زریعے ) سے یا پردہ کے پیچھے سے ۔ میں پردے کے پیچھے سے کلام کرنے کے معنی یہ ہیں کہ جس سے اللہ تعالیٰ کلام کرتے ہیں وہ ذات الہی کو دیکھ نہیں سکتا اور آیت کریمہ ؛ ۔ حَتَّى تَوارَتْ بِالْحِجابِ [ ص/ 32] کے معنی ہیں حتی ٰ کہ سورج غروب ہوگیا ۔ الحاجب دربان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ بادشاہ تک پہنچنے سے روک دیتا ہے ۔ اور حاجبان ( تنبہ ) بھویں کو کہتے ہیں کیونکہ وہ آنکھوں کے لئے بمنزلہ سلطانی دربان کے ہوتی ہیں ۔ حاجب الشمس سورج کا کنارہ اسلئے کہ وہ بھی بادشاہ کے دربان کی طرح پہلے پہل نمودار ہوتا ہے اور آیت کریمۃ ؛۔ كَلَّا إِنَّهُمْ عَنْ رَبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَمَحْجُوبُونَ [ المطففین/ 15] کے معنی یہ ہیں کہ قیامت کے رو ز تجلٰ الہی کو ان سے روک لیا جائیگا ( اس طرح وہ دیدار الہی سے محروم رہیں گے ) جس کے متعلق آیت کریمۃ ؛۔ فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید/ 13] میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ أَعْرافِ وقوله : وَعَلَى الْأَعْرافِ رِجالٌ [ الأعراف/ 46] ، فإنه سور بين الجنّة والنار، اور آیت کریمہ : وَعَلَى الْأَعْرافِ رِجالٌ [ الأعراف/ 46] اور اعراف پر کچھ آدمی ہوں گے ۔ میں الاعراف سے وہ دیوار مراد ہے جو جنت اور دوزخ کے درمیاں حائل ہے ۔ رجل الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا [ الأنعام/ 9] ( ر ج ل ) الرجل کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام/ 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ عرف المَعْرِفَةُ والعِرْفَانُ : إدراک الشیء بتفکّر وتدبّر لأثره، وهو أخصّ من العلم، ويضادّه الإنكار، قال تعالی: فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة/ 89] ، فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] ( ع رف ) المعرفۃ والعرفان کے معنی ہیں کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ الانکار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛ فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة/ 89] پھر جس کو وہ خوب پہنچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس کافر ہوگئے ۔ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف/ 58] تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے ۔ وسم الوَسْمُ : التأثير، والسِّمَةُ : الأثرُ. يقال : وَسَمْتُ الشیءَ وَسْماً : إذا أثّرت فيه بِسِمَةٍ ، قال تعالی: سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ [ الفتح/ 29] ، وقال : تَعْرِفُهُمْ بِسِيماهُمْ [ البقرة/ 273] ، وقوله : إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ [ الحجر/ 75] ، أي : للمعتبرین العارفین المتّعظین، وهذا التَّوَسُّمُ هو الذي سمّاه قوم الزَّكانةَ ، وقوم الفراسة، وقوم الفطنة . قال عليه الصلاة والسلام : «اتّقوا فراسة المؤمن فإنّه ينظر بنور الله» وقال تعالی: سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ [ القلم/ 16] ، أي : نعلّمه بعلامة يعرف بها کقوله : تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ [ المطففین/ 24] ، والوَسْمِيُّ : ما يَسِمُ من المطر الأوّل بالنّبات . ( وس م ) الوسم ( ض ) کے معنی نشان اور داغ لگانے کے ہیں اور سمۃ علامت اور نشان کو کہتے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ وسمت الشئی وسما میں نے اس پر نشان لگایا ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ [ القلم/ 16] ہم عنقریب اس کی ناک پر داغ لگائیں گے ؛ یعنی اس کی ناک پر ایسا نشان لگائیں گے جس سے اس کی پہچان ہو سکے گی ۔ جیسا کہ مو منین کے متعلق فرمایا : ۔ تَعْرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ [ المطففین/ 24] تم ان کے چہروں ہی سے راحت کی تازگی معلوم کر لوگے ۔ سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ [ الفتح/ 29] کثرت سجود گے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں ۔ تَعْرِفُهُمْ بِسِيماهُمْ [ البقرة/ 273] اور تم قیافے سے ان کو صاف پہچان لوگے ۔ التوسم کے معنی آثار وقرائن سے کسی چیز کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کر نا کے ہیں اور اسے علم ذکانت فراصت اور فطانت بھی کہا جاتا ہے حدیث میں یعنی مومن کی فراست سے ڈرتے رہو وہ خدا تعالیٰ کے عطا کئے ہوئے نور توفیق سے دیکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ [ الحجر/ 75] بیشک اس ( قصے ) میں اہل فراست کے لئے نشانیاں ہیں ۔ یعید ان کے قصہ میں عبرت اور نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے بہت سے نشا نات ہیں الوسمی ۔ موسم بہار کی ابتدائی بارش کو کہتے ہیں سلام السِّلْمُ والسَّلَامَةُ : التّعرّي من الآفات الظاهرة والباطنة، قال : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [ الشعراء/ 89] ، أي : متعرّ من الدّغل، فهذا في الباطن، وقال تعالی: مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها [ البقرة/ 71] ، فهذا في الظاهر، وقد سَلِمَ يَسْلَمُ سَلَامَةً ، وسَلَاماً ، وسَلَّمَهُ الله، قال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال/ 43] ، وقال : ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر/ 46] ، أي : سلامة، وکذا قوله : اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود/ 48] . والسّلامة الحقیقيّة ليست إلّا في الجنّة، إذ فيها بقاء بلا فناء، وغنی بلا فقر، وعزّ بلا ذلّ ، وصحّة بلا سقم، كما قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : السلام ة، قال : وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس/ 25] ، وقال تعالی: يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة/ 16] ، يجوز أن يكون کلّ ذلک من السّلامة . وقیل : السَّلَامُ اسم من أسماء اللہ تعالیٰ «1» ، وکذا قيل في قوله : لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام/ 127] ، والسَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر/ 23] ، قيل : وصف بذلک من حيث لا يلحقه العیوب والآفات التي تلحق الخلق، وقوله : سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس/ 58] ، سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد/ 24] ، سلام علی آل ياسین «2» كلّ ذلک من الناس بالقول، ومن اللہ تعالیٰ بالفعل، وهو إعطاء ما تقدّم ذكره ممّا يكون في الجنّة من السّلامة، وقوله : وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان/ 63] ، أي : نطلب منکم السّلامة، فيكون قوله ( سلاما) نصبا بإضمار فعل، وقیل : معناه : قالوا سَلَاماً ، أي : سدادا من القول، فعلی هذا يكون صفة لمصدر محذوف . وقوله تعالی: إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات/ 25] ، فإنما رفع الثاني، لأنّ الرّفع في باب الدّعاء أبلغ «3» ، فكأنّه تحرّى في باب الأدب المأمور به في قوله : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء/ 86] ، ومن قرأ سلم «4» فلأنّ السّلام لمّا کان يقتضي السّلم، وکان إبراهيم عليه السلام قد أوجس منهم خيفة، فلمّا رآهم مُسَلِّمِينَ تصوّر من تَسْلِيمِهِمْ أنهم قد بذلوا له سلما، فقال في جو ابهم : ( سلم) ، تنبيها أنّ ذلک من جهتي لکم كما حصل من جهتكم لي . وقوله تعالی: لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة/ 25- 26] ، فهذا لا يكون لهم بالقول فقط، بل ذلک بالقول والفعل جمیعا . وعلی ذلک قوله تعالی: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 91] ، وقوله : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] ، فهذا في الظاهر أن تُسَلِّمَ عليهم، وفي الحقیقة سؤال اللہ السَّلَامَةَ منهم، وقوله تعالی: سَلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات/ 79] ، سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات/ 120] ، سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات/ 109] ، كلّ هذا تنبيه من اللہ تعالیٰ أنّه جعلهم بحیث يثنی __________ عليهم، ويدعی لهم . وقال تعالی: فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ [ النور/ 61] ، أي : ليسلّم بعضکم علی بعض . ( س ل م ) السلم والسلامۃ کے معنی ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [ الشعراء/ 89] پاک دل ( لے کر آیا وہ بچ جائیگا یعنی وہ دل جو دغا اور کھوٹ سے پاک ہو تو یہ سلامت باطن کے متعلق ہے اور ظاہری عیوب سے سلامتی کے متعلق فرمایا : مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها[ البقرة/ 71] اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو ۔ پس سلم یسلم سلامۃ وسلاما کے معنی سلامت رہنے اور سلمۃ اللہ ( تفعیل ) کے معنی سلامت رکھنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ [ الأنفال/ 43] لیکن خدا نے ( تمہیں ) اس سے بچالیا ۔ ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ [ الحجر/ 46] ان میں سلامتی اور ( خاطر جمع ) سے داخل ہوجاؤ ۔ اسی طرح فرمایا :۔ اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا[هود/ 48] ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ ۔۔۔ اترآؤ ۔ اور حقیقی سلامتی تو جنت ہی میں حاصل ہوگی جہاں بقائ ہے ۔ فنا نہیں ، غنا ہے احتیاج نہیں ، عزت ہے ذلت نہیں ، صحت ہے بیماری نہیں چناچہ اہل جنت کے متعلق فرمایا :۔ لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے ۔ وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ [يونس/ 25] اور خدا سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے ۔ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ [ المائدة/ 16] جس سے خدا اپنی رضامندی پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے ۔ ان تمام آیات میں سلام بمعنی سلامتی کے ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں السلام اسمائے حسنیٰ سے ہے اور یہی معنی آیت لَهُمْ دارُ السَّلامِ [ الأنعام/ 127] میں بیان کئے گئے ہیں ۔ اور آیت :۔ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ الحشر/ 23] سلامتی امن دینے والا نگہبان ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وصف کلام کے ساتھ موصوف ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جو عیوب و آفات اور مخلوق کو لاحق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے پاک ہے ۔ اور آیت :۔ سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ [يس/ 58] پروردگار مہربان کی طرف سے سلام ( کہاجائیگا ) سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ [ الرعد/ 24] اور کہیں گے ) تم رحمت ہو ( یہ ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے ۔ سلام علی آل ياسین «2» کہ ایسا پر سلام اور اس مفہوم کی دیگر آیات میں سلام علیٰ آیا ہے تو ان لوگوں کی جانب سے تو سلامتی بذریعہ قول مراد ہے یعنی سلام علی ٰ الخ کے ساتھ دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے سلامتی بالفعل مراد ہے یعنی جنت عطافرمانا ۔ جہاں کہ حقیقی سلامتی حاصل ہوگی ۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں اور آیت :۔ وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً [ الفرقان/ 63] اور جب جاہل لوگ ان سے ( جاہلانہ ) گفتگو کرتے ہیں ۔ تو سلام کہتے ہیں ۔ مٰیں قالوا سلاما کے معنی ہیں ہم تم سے سلامتی چاہتے ہیں ۔ تو اس صورت میں سلاما منصوب اور بعض نے قالوا سلاحا کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اچھی بات کہتے ہیں تو اس صورت میں یہ مصدر مخذوف ( یعنی قولا ) کی صٖت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ [ الذاریات/ 25] جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام کہا ۔ انہوں نے بھی ( جواب میں ) سلام کہا ۔ میں دوسری سلام پر رفع اس لئے ہے کہ یہ باب دعا سے ہے اور صیغہ دعا میں رفع زیادہ بلیغ ہے گویا اس میں حضرت ابراہیم نے اس اد ب کو ملحوظ رکھا ہے جس کا کہ آیت : وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها [ النساء/ 86] اور جب تم کوئی دعا دے تو ( جواب میں ) تم اس سے بہتر ( کا مے) سے ( اسے ) دعا دو ۔ میں ھکم دیا گیا ہے اور ایک قرآت میں سلم ہے تو یہ اس بنا پر ہے کہ سلام سلم ( صلح) کو چاہتا تھا اور حضرت ابراہیم السلام ان سے خوف محسوس کرچکے تھے جب انہیں سلام کہتے ہوئے ۔ سنا تو اس کو پیغام صلح پر محمول کیا اور جواب میں سلام کہہ کر اس بات پر متنبہ کی کہ جیسے تم نے پیغام صلح قبول ہو ۔ اور آیت کریمہ : لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً [ الواقعة/ 25- 26] وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے ار نہ گالی گلوچ ہاں ان کا کلام سلام سلام ( ہوگا ) کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات صرف بذیعہ قول نہیں ہوگی ۔ بلکہ اور فعلا دونوں طرح ہوگئی ۔ اسی طرح آیت :: فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 91] تو ( کہا جائیگا کہ ) تم پر پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام میں بھی سلام دونوں معنی پر محمول ہوسکتا ہے اور آیت : وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] اور سلام کہدو ۔ میں بظارہر تو سلام کہنے کا حکم ہے لیکن فی الحققیت ان کے شر سے سللامتی کی دعا کرنے کا حکم ہے اور آیات سلام جیسے سلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ [ الصافات/ 79]( یعنی ) تمام جہان میں نوح (علیہ السلام) پر سلام کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام ۔ ۔ سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ [ الصافات/ 120] ابراہیم پر سلام ۔ سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ [ الصافات/ 109] میں اس بات پر تنبیہ ہی کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء ابراہیم کو اس قدر بلند مرتبہ عطا کیا تھا کہ لوگ ہمیشہ ان کی تعریف کرتے اور ان کے لئے سلامتی کے ساتھ دعا کرتے رہیں گے اور فرمایا : فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ [ النور/ 61] اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے ( گھر والوں ) کو سلام کیا کرو ۔ یعنی تم ایک دوسرے کو سلام کہاکرو ۔ طمع الطَّمَعُ : نزوعُ النّفسِ إلى الشیء شهوةً له، طَمِعْتُ أَطْمَعُ طَمَعاً وطُمَاعِيَةً ، فهو طَمِعٌ وطَامِعٌ. قال تعالی: إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنا رَبُّنا[ الشعراء/ 51] ، أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ [ البقرة/ 75] ، خَوْفاً وَطَمَعاً [ الأعراف/ 56] ، ( ط م ع ) الطمع کے معنی ہیں نفس انسانی کا کسی چیز کی طرف خواہش کے ساتھ میلان ۔ طمع ( س ) طمعا وطماعیۃ کسی چیز کی طرف خواہش کے ساتھ مائل ہونا طمع وطامع اس طرح مائل ہونے والا قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنا رَبُّنا[ الشعراء/ 51] ہمین امید ہے کہ ہمارا خدا ہمارے گناہ بخش دیگا ۔ أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ [ البقرة/ 75]( مومنوں ) کیا تم آرزو رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے دین کے قائل ہوجائیں گے ۔ خَوْفاً وَطَمَعاً [ الأعراف/ 56] وڑانے اور امید دلانے کیلئے
Top