Tafseer-e-Usmani - Al-A'raaf : 45
الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ یَبْغُوْنَهَا عِوَجًا١ۚ وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ كٰفِرُوْنَۘ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يَصُدُّوْنَ : روکتے تھے عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَيَبْغُوْنَهَا : اور اس میں تلاش کرتے تھے عِوَجًا : کجی وَهُمْ : اور وہ بِالْاٰخِرَةِ : آخرت کے كٰفِرُوْنَ : کافر (جمع)
جو روکتے تھے اللہ کی راہ سے اور ڈھونڈھتے تھے اس میں کجی اور وہ آخرت سے منکر تھے6 
6  ان آیات میں ان مخاطبات و مکالمات کا ذکر ہے جو جنتیوں یا دوزخیوں یا ان دونوں اور اصحاب اعراف میں ہونگے۔ پہلی اور آخری گفتگو جو " اصحاب الجنۃ ' ' اور " اصحاب النار " میں ادھر سے یا ادھر سے ہوگی صاف ظاہر کرتی ہے کہ یہ مخاطبات جنت یا دوزخ میں داخل ہونے کے بعد کے ہیں۔ اس لئے نظم کلام کا مقتضٰی یہ ہے کہ اصحاب اعراف کی درمیانی گفتگو کو بھی اس کے بعد ہی مانا جائے۔ بہرحال جنتی جنت میں پہنچ کر اپنے حال پر اظہار مسرت اور دوزخیوں کی تقریع و نکایت کے لئے کہیں گے کہ جو کچھ وعدے حق تعالیٰ نے پیغمبروں کی زبانی ہم سے فرمائے تھے کہ ایمان لانے والوں کو نعیم دائم ملے گی ہم تو انہیں سچا پا رہے ہیں اے اہل جہنم ! تم بولو کہ تمہارے کفر و عصیان پر جو دھمکیاں دی گئی تھیں تم نے بھی ان کو سچا پایا ؟ ظاہر ہے جواب میں بجز " نعم " کے اور کیا کہہ سکتے ہیں۔ اس وقت خدا کا ایک منادی دونوں کے درمیان کھڑے ہو کر پکارے گا کہ (یوں تو گنہگار بہت سے ہیں مگر) خدا کی بڑی پھٹکار ان ظالموں پر ہے جو خود گمراہ ہوئے اور آخرت کے انجام سے بالکل بےفکر ہو کر دوسروں کو بھی راہ حق سے روکتے رہے اور اپنی کج بحثیوں سے رات دن اسی فکر میں تھے کہ صاف اور سیدھے راستہ کو ٹیڑھا ثابت کریں۔
Top