Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 45
الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ یَبْغُوْنَهَا عِوَجًا١ۚ وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ كٰفِرُوْنَۘ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يَصُدُّوْنَ : روکتے تھے عَنْ : سے سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَيَبْغُوْنَهَا : اور اس میں تلاش کرتے تھے عِوَجًا : کجی وَهُمْ : اور وہ بِالْاٰخِرَةِ : آخرت کے كٰفِرُوْنَ : کافر (جمع)
ان پر جو اللہ کی راہ سے روکتے اور اس میں کجی پیدا کرنا چاہتے ہیں اور وہ آخرت کے منکر ہیں
الَّذِيْنَ يَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَيَبْغُوْنَهَا عِوَجًا ۚ وَهُمْ بِالْاٰخِرَةِ كٰفِرُوْنَ۔ عام طور پر لوگوں نے اس ٹکڑے کو منادی کے اعلان ہی کا ایک حصہ سمجھا ہے لیکن میرے نزدیک منادی کا اعلان لفظ ظلمین ہی پر تمام ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد یہ ٹکڑا بطور تضمین ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت کے طور پر اس کے ساتھ لگایا ہے تاکہ کلام محض مستقبل کی ایک حکایت بن کے نہ رہ جائے بلکہ حال پر بھی پوری طرح منطبق ہوجائے اس تضمین سے گویا یہ وضاحت ہوگئی کہ ظالمین سے مراد کون لوگ ہوں گے۔ فرمایا کہ وہی لوگ جو آج اللہ کی راہ سے لوگوں کو روک رہے ہیں، جو اس میں کجی پیدا کرنے کے لیے ساعی ہیں اور آخرت کے منکر ہیں۔ اس وضاحت کے بعد آخرت میں ہونے والی منادی وقت کے قریش پر ٹھیک ٹھیک اس طرح چسپاں ہوگئی، گویا۔ جامہ بود کہ بر قامت او دوختہ بود۔ اس قسم کی تضمینات قرآن مجید میں بہت ہیں پیچھے بھی اس کی مثالیں گزر چکی ہیں، آگے بھی نہایت بلیغ مثالیں آئیں گی۔ اس کی ایک مثال آیت 51 میں بھی آرہی ہے۔ انہی تضمینات سے بالعموم اصولی باتیں یا مستقبل کے ماجرے یا ماضی کے سرگزشتیں حاضر اور حال کا جامہ پہنتی ہیں۔ اس وجہ سے ان پر خاص طور پر نگاہ رکھنی پڑتی ہے ورنہ نظم کلام درہم برہم ہوجاتا ہے اور تاویل میں ایسے تکلف سے کام لینا پڑتا ہے جس سے نہ صرف ذوق ابا کرتا ہے بلکہ زبان کے آداب و قواعد بھی اس کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ چناچہ یہاں بھی جن لوگوں نے اس کو تضمین نہیں مانا انہیں وھم بالاخرۃ کفرون کے ٹکڑے کی تاویل میں تکلف کرنا پڑا۔ انہوں نے اس کو وھم بالاخرۃ کانوا کفرین کے معنی میں لیا حالانکہ یہ قرا ان میں ایک قسم کا اضافہ ہے۔ الذین یصدون، میں صد کا لفظ لازم اور متعدی یعنی رکنے اور روکنے کے دونوں معنوں میں آیا ہے، ایسے الفاظ کے ترجمے میں مشکل پیش آتی ہے۔ میرنے نزدیک ایسے الفاظ کے باب میں محتاط طریقہ یہ ہے کہ اگر قرینہ واضح ہو تب تو قرینہ کے تقاضے کے متعلق ترجمہ کرنا چاہیے ورنہ متعدی مفہوم کے اعتبار سے ترجمہ اولی ہے اس لیے کہ متعدی کے اندر لازم کا مفہوم خود مضمر ہوتا ہے۔ الزین یبغونہا عوجا میں عوج سے مراد تو اگرچہ وہ ساری کج رائیاں اور کج علمیاں ہوسکتی ہیں جو خدا کی راہ سے ہٹ کر انسان اختیار کرتا ہے لیکن نظائر قرآن کی روشنی میں میرے نزدیک اس کا مفہوم خدا کی صراط مستقیم یعنی توحید کی راہ میں کجی پیدا کر کے شرک کی پگڈنڈیاں نکالنا ہے، ان نظائر کی وضاحت کسی مناسب محل میں انشاء اللہ تفصیل سے آئے گی۔
Top