Mufradat-ul-Quran - At-Tawba : 13
اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ وَ هَمُّوْا بِاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَ هُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ١ؕ اَتَخْشَوْنَهُمْ١ۚ فَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اَلَا تُقَاتِلُوْنَ : کیا تم نہ لڑوگے قَوْمًا : ایسی قوم نَّكَثُوْٓا : انہوں نے توڑ ڈالا اَيْمَانَهُمْ : اپنا عہد وَهَمُّوْا : اور ارادہ کیا بِاِخْرَاجِ : نکالنے کا الرَّسُوْلِ : رسول وَهُمْ : اور وہ بَدَءُوْكُمْ : تم سے پہل کی اَوَّلَ مَرَّةٍ : پہلی بار اَتَخْشَوْنَهُمْ : کیا تم ان سے ڈرتے ہو فَاللّٰهُ : تو اللہ اَحَقُّ : زیادہ حقدار اَنْ : کہ تَخْشَوْهُ : تم اس سے ڈرو اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
بھلا تم ایسے لوگوں سے کیوں نہ لڑو (جنہوں نے اپنی) قسموں کو توڑ ڈالا اور پیغمبر (خدا) ﷺ کے جلا وطن کرنے کا عزم مصمم کرلیا اور انہوں نے تم سے (عہد شکنی کی) ابتداء کی ؟ کیا تم ایسے لوگوں سے ڈرتے ہو ؟ حالانکہ ڈرنے کے لائق خدا ہے بشرطیکہ ایمان رکھتے ہو۔
اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَہُمْ وَہَمُّوْا بِـاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَہُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ۝ 0 ۭ اَتَخْشَوْنَہُمْ۝ 0 ۚ فَاللہُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْہُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۝ 13 قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] نكث النَّكْثُ : نَكْثُ الأَكْسِيَةِ والغَزْلِ قَرِيبٌ مِنَ النَّقْضِ ، واستُعِيرَ لِنَقْضِ العَهْدِ قال تعالی: وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ [ التوبة/ 12] ، إِذا هُمْ يَنْكُثُونَ [ الأعراف/ 135] والنِّكْثُ کالنِّقْضِ والنَّكِيثَةُ کالنَّقِيضَةُ ، وكلُّ خَصْلة يَنْكُثُ فيها القومُ يقال لها : نَكِيثَةٌ. قال الشاعر مَتَى يَكُ أَمْرٌ لِلنَّكِيثَةِ أَشْهَد ( ن ک ث ) النکث کے معنی کمبل یا سوت ادھیڑ نے کے ہیں اور یہ قریب قریب نقض کے ہم معنی ہے اور بطور استعارہ عہد شکنی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمانَهُمْ [ التوبة/ 12] اور اگر اپنی قسمیں توڑ ڈالیں ۔ إِذا هُمْ يَنْكُثُونَ [ الأعراف/ 135] تو وہ عہد توڑ ڈالتے ہیں ۔ النکث والنکثۃ ( مثل النقض والتقضۃ اور نکیثۃ ہر اس مشکل معاملہ کو کہتے ہیں جس میں لوگ عہد و پیمان توڑ ڈالیں شاعر نے کہا ( 437 ) متیٰ یک امر للنکیثۃ اشھد جب کوئی معاملہ عہد شکنی کی حد تک پہنچ جائے تو میں حاضر ہوتا ہون ۔ همم الهَمُّ الحَزَنُ الذي يذيب الإنسان . يقال : هَمَمْتُ الشّحم فَانْهَمَّ ، والهَمُّ : ما هممت به في نفسک، وهو الأصل، وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِها[يوسف/ 24] ( ھ م م ) الھم کے معنی پگھلا دینے والے غم کے ہیں اور یہ ھممت الشحم فا نھم کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے چربی کو پگھلا یا چناچہ وہ پگھل گئی اصل میں ھم کے معنی اس ارادہ کے ہیں جو ابھی دل میں ہو قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِها[يوسف/ 24] اور اس عورت نے ان کا قصد کیا وہ وہ اس کا قصد کرلیتے۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ رسل أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] ( ر س ل ) الرسل الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير/ 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود/ 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران/ 144] اور محمد ﷺ اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس بدأ يقال : بَدَأْتُ بکذا وأَبْدَأْتُ وابْتَدَأْتُ ، أي : قدّمت، والبَدْءُ والابتداء : تقدیم الشیء علی غيره ضربا من التقدیم . قال تعالی: وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسانِ مِنْ طِينٍ [ السجدة/ 7] ( ب د ء ) بدء ات بکذا وابتدءات میں نے اسے مقدم کیا ۔ اس کے ساتھ ابتدا کی ۔ البداء والابتداء ۔ ایک چیز کو دوسری پر کسی طور مقدم کرنا قرآن میں ہے { وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ } ( سورة السجدة 7) اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا ۔ مَرَّةً مَرَّةً ومرّتين، كفَعْلَة وفَعْلَتين، وذلک لجزء من الزمان . قال : يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ [ الأنفال/ 56] ، وَهُمْ بَدَؤُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 13] ، إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة/ 80] ، إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 83] ، سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ [ التوبة/ 101] ، وقوله : ثَلاثَ مَرَّاتٍ [ النور/ 58] . مرۃ ( فعلۃ ) ایک بار مرتان ض ( تثنیہ ) دو بار قرآن میں ہے : يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ [ الأنفال/ 56] پھر وہ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں ۔ وَهُمْ بَدَؤُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 13] اور انہوں نے تم سے پہلی بار ( عہد شکنی کی ) ابتداء کی ۔إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة/ 80] اگر آپ ان کے لئے ستربار بخشیں طلب فرمائیں ۔ إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة/ 83] تم پہلی مرتبہ بیٹھ رہنے پر رضامند ہوگئے ۔ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ [ التوبة/ 101] ہم ان کو دو بار عذاب دیں گے ۔ ثَلاثَ مَرَّاتٍ [ النور/ 58] تین دفعہ ( یعنی تین اوقات ہیں ۔ خشی الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ( خ ش ی ) الخشیۃ ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔
Top