Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 13
اَلَا تُقَاتِلُوْنَ قَوْمًا نَّكَثُوْۤا اَیْمَانَهُمْ وَ هَمُّوْا بِاِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَ هُمْ بَدَءُوْكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ١ؕ اَتَخْشَوْنَهُمْ١ۚ فَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اَلَا تُقَاتِلُوْنَ : کیا تم نہ لڑوگے قَوْمًا : ایسی قوم نَّكَثُوْٓا : انہوں نے توڑ ڈالا اَيْمَانَهُمْ : اپنا عہد وَهَمُّوْا : اور ارادہ کیا بِاِخْرَاجِ : نکالنے کا الرَّسُوْلِ : رسول وَهُمْ : اور وہ بَدَءُوْكُمْ : تم سے پہل کی اَوَّلَ مَرَّةٍ : پہلی بار اَتَخْشَوْنَهُمْ : کیا تم ان سے ڈرتے ہو فَاللّٰهُ : تو اللہ اَحَقُّ : زیادہ حقدار اَنْ : کہ تَخْشَوْهُ : تم اس سے ڈرو اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
کیا نہیں لڑو گے تم ایسے لوگوں سے ؟ جنہوں نے توڑ دیا اپنی قسموں کو، اور انہوں نے ٹھان لی (اپنے گھر سے) نکال باہر کرنے کی اللہ کے رسول کو، اور انہوں نے ہی پہل کی تم سے زیادتی کرنے میں، کیا تم اس سے ڈرتے ہو ؟ سو اللہ زیادہ حقدار ہے اس کا کہ تم اس سے ڈرو، اگر تم ایماندار ہو1،
28 جہاد فی سبیل اللہ کیلئے ترغیب وتحریض : سو ارشاد فرمایا گیا کہ کیا تم لوگ لڑو گے نہیں ایسے لوگوں سے جنہوں نے توڑ دیا اپنی قسموں کو اور انہوں نے ٹھان لی اللہ کے رسول کو ان کے گھر سے نکالنے کی۔ یہ استفہام تحریض و ترغیب کے لئے ہے۔ یعنی ایسوں سے تم کو ضرور لڑنا چاہیئے جن کے یہ اور یہ کرتوت اور ایسے اور ایسے جرائم اور سیاہ کارنامے ہوں کہ ان میں سے ہر ایک بات اس کا تقاضا کرتی ہے کہ تم ان سے جنگ کرو۔ چہ جائے کہ جب یہ سب ہی اسباب فساد و بگاڑ یکجا طور پر موجود ہوں۔ (الکبیر للرازی وغیرہ) ۔ سو ایسے میں تم لوگوں کو ان کفار و مشرکین سے ضرور جنگ و جہاد کرنا چاہیئے۔ یہ تمہارے دین و ایمان اور تمہاری دینی غیرت کا تقاضا ہے۔ بہرکیف اس میں اہل حق کو اہل باطل کے خلاف جہاد کے لیے ابھارا گیا ہے کہ جن لوگوں کے جرائم یہ اور یہ ہیں ان سے تم کو ضرور لڑنا چاہیے۔ تاکہ فتنہ و فساد کا قلع قمع ہو سکے۔ 29 معاندین و منکرین کی بدبختی اور ہٹ دھرمی کے ایک اور نمونے کا ذکر وبیان : سو اس سے ان بدبختوں کی ہٹ دھرمی اور بدبختی کا ایک اور نمونہ سامنے آتا ہے کہ انہوں نے اللہ کے رسول کو ان کے گھر سے نکالنے کا پروگرام بنایا حالانکہ اللہ کے رسول کے اخراج کا ارادہ و فیصلہ عذاب خداوندی کو دعوت دینا ہوتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو ارشاد فرمایا کہ ان بدبخت لوگوں نے اللہ کے رسول کو نکال باہر کرنے کی ٹھان لی۔ یعنی مکہ مکرمہ سے۔ چناچہ رؤسائے مکہ نے اپنے پارلیمنٹ ہاؤس " دار الندوہ " میں اس کے لئے باقاعدہ میٹنگ کر کے اپنے اس گھناؤنے جرم کے ارتکاب کا فیصلہ کیا، جیسا کہ سورة اَنفال میں ذکر فرمایا گیا ہے { وَاِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوکَ اَوْ یُخِْرجُوْکَ } الآیۃ (الانفال : 30) ۔ اور " دارالندوہ " کی اس سازش و قرارداد میں مشرکین مکہ نے اگرچہ ان تین باتوں ہی کے بارے میں غور کیا تھا یعنی قتل، قید اور اخراج، مگر واقع میں چونکہ ان تینوں میں سے ایک ہی صورت ظہور پذیر ہوئی تھی اس لئے یہاں اسی ایک کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ یعنی اخراج و جلاوطنی۔ (روح، ابن کثیر، صفوہ، محاسن وغیرہ) ۔ سو رسول کے اخراج کا ارادہ و پروگرام دراصل عذاب خداوندی کو دعوت دینا ہوتا ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ پس ایسے کفار سے لڑنا اور ان سے جنگ کرنا تمہارے دین و ایمان کا تقاضا ہے اے ایمان والو۔ سو تم ان سے لڑو تاکہ ایسے بدبختوں کو تمہارے ہاتھ سے سزا ملے۔ فتنے کا خاتمہ ہو اور راہ حق کے سلسلے میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔ 30 جہاد و قتال کے ایک اہم باعث کا ذکر وبیان : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ جہاد و قتال کا ایک اہم باعث اور جنگ کا ایک داعیہ، کفار کا شرانگیزی میں پہل کرنا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ انہوں نے تم سے پہل کی لڑائی میں اور ظلم و زیادتی میں۔ یعنی غزوئہ بدر کے موقعہ پر، کہ جب ان کا قافلہ صحیح وسالم نکل گیا تھا تو انہوں نے واپسی کی بجائے جنگ ہی کا پروگرام بنایا تھا اور اپنے غرور و سرکشی کی بناء پر واپس ہونے سے انکار کردیا تھا۔ (ابن کثیر، محاسن التاویل وغیرہ) ۔ چناچہ روایات کے مطابق اس موقع پر جب کفار کے سرغنہ ابوجہل سے کہا گیا کہ اب جبکہ ہمارا قافلہ صحیح وسالم نکل گیا، ہمارے خروج کا مقصد پورا ہوگیا اور جنگ کا خطرہ ٹل گیا تو اب ہمیں واپس ہوجانا چاہیئے۔ تو اس لعین نے کہا نہیں بلکہ ہم آگے جائیں گے۔ بدر میں پڑاؤ ڈالیں گے۔ اونٹ کاٹیں گے، شراب کے دور چلیں گے اور گانے والیاں گائیں گی تاکہ عربوں پر ہماری دھاک بیٹھ جائے اور آئندہ کسی کو ہماری طرف آنکھ اٹھانے کی ہمت و جرأت نہ ہوسکے۔ سو کفار کا شرانگیزی میں پہل کرنا جنگ اور جہاد و قتال کا ایک بڑا داعیہ ہے۔ اس لیے تمہیں ان کے خلاف جہاد کے لیے اٹھ کھڑا ہونا چاہئے۔ تاکہ زیادتی کرنے والے یہ ظالم اپنے کیے کی کچھ سزا بھگت سکیں۔ 31 ڈرنا ہمیشہ اللہ ہی سے چاہیئے : سو ارشاد فرمایا گیا کیا تم ان لوگوں سے ڈرتے ہو ؟ حالانکہ اللہ زیادہ حق دار ہے اس بات کا کہ تم اسی سے ڈرو۔ استفہام یہاں پر توبیخ و تقریع کے لئے ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہونا چاہیئے کہ تم لوگ اس ڈر اور خوف کی بنا پر ان سے جہاد و قتال کے لئے تیار نہ ہوؤ۔ (فتح القدیر وغیرہ) ۔ کہ نفع و نقصان اسی وحدہ لاشریک کے قبضہء قدرت واختیار میں ہے۔ پس ڈرنا ہر حال میں اسی وحدہ لاشریک سے چاہیئے نہ کہ ان لوگوں سے جن کے اختیار میں کچھ بھی نہیں۔ اور ہمیشہ فکر و کوشش اسی کی ہونی چاہیئے کہ اس خالق ومالک کے ساتھ ہمارا تعلق صحیح رہے تاکہ اس کی توفیق و عنایت اور نصرت و امداد ہمارے شامل حال رہے کہ اس کے بعد کسی کی پرواہ نہیں ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید ۔ سبحانہ وتعالی -
Top