Mutaliya-e-Quran - Aal-i-Imraan : 124
اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ اَلَنْ یَّكْفِیَكُمْ اَنْ یُّمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلٰثَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِكَةِ مُنْزَلِیْنَؕ
اِذْ تَقُوْلُ : جب آپ کہنے لگے لِلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کو اَلَنْ يَّكْفِيَكُمْ : کیا کافی نہیں تمہارے لیے اَنْ : کہ يُّمِدَّكُمْ : مدد کرے تمہاری رَبُّكُمْ : تمہارا رب بِثَلٰثَةِ اٰلٰفٍ : تین ہزار سے مِّنَ : سے الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتے مُنْزَلِيْنَ : اتارے ہوئے
یاد کرو جب تم مومنوں سے کہہ رہے تھے، "کیا تمہارے لیے یہ بات کافی نہیں کہ اللہ تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد کرے؟"
[اِذْ : جب ] [تَقُوْلُ : آپ ﷺ کہتے تھے ] [لِلْمُؤْمِنِیْنَ : ایمان لانے والوں سے ] [اَ : کیا ] [لَنْ یَّـکْفِیَکُمْ : ہرگز کافی نہیں ہوگا تم کو ] [اَنْ : (یہ) کہ ] [یُّمِدَّکُمْ : مدد کرے تمہاری ] [رَبُّـکُمْ : تمہارا رب ] [بِثَلٰـثَۃِ اٰلٰفٍ : تین ہزار ] [مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ : فرشتوں سے ] [مُنْزَلِیْنَ : اتارے ہوئے ہوتے ہوئے ] و ر فَارَ (ن) فَوْرًا : جوش مارنا ‘ اُبلنا۔ { وَفَارَ التَّـنُّـوْرُ } (ھود :40) ” اور ابلا تنور۔ “ فَوْرٌ (اسم ذات بھی ہے) : جوش ‘ اُبال۔ (آیت زیر مطالعہ) ط ر طَرَفَ (ض) طَرْفًا : کسی کو کسی چیز کے کنارے پر کرنا۔ طَرْفٌ (اسم ذات بھی ہے) : (1) کسی چیز کا کنارہ ‘ پہلو۔ (2) آنکھ کی پلک۔ { قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَـیْکَ طَرْفُکَط } (النمل :40) ” قبل اس کے کہ لوٹے آپ کی طرف آپ کی پلک۔ “ ک ب ت کَبَتَ (ض) کَبْتًا : کسی کو ذلیل کرنا ۔ (آیت زیر مطالعہ) خ ی ب خَابَ (ض) خَیْبَۃً : مقصد میں ناکام ہونا ‘ نامراد ہونا۔ { وَخَابَ کُلُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ ۔ } (ابرٰھیم) ” اور نامراد ہوا ہر ایک سرکش ہٹ دھرم۔ “ خَائِبٌ (اسم الفاعل) : نامراد ہونے والا۔ (آیت زیر مطالعہ) ترکیب :” کُمْ “ کی ضمیر ” یَکْفِیَ “ کا مفعول ہے اور آگے ” اَنْ یُمِدَّ “ سے ” مُنْزَلِیْنَ “ تک پورافقرہ اس کا فاعل ہے۔ ” مُنْزَلِیْنَ “ اگر ” مَلٰئِکَۃِ “ کی صفت ہوتا تو پھر ” اَلْمُنْزَلِیْنَ “ آتا ‘ اس لیے یہ ان کا حال ہے۔ اسی طرح ” مُسَوِّمِیْنَ “ بھی حال ہے۔ ” مَا جَعَلَہُ “ میں ” ٹہُ “ کی ضمیر مفعولی گزشتہ بات کے لیے ہے جس میں مدد کا ذکر ہے۔ اور ” جَعَلَ “ کا مفعول ثانی ” بُشْرٰی “ ہے۔ ” بِہٖ “ کی ضمیر ” بُشْرٰی “ کے لیے ہے جو مؤنث غیر حقیقی ہے ‘ اس لیے مذکر ضمیر بھی جائز ہے۔ ” اَلنَّصْرُ “ پر لام جنس ہے۔ ” لِیَقْطَعَ “ کا فاعل اس میں ” ھُوَ “ کی ضمیر ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ ” فَا “ سببیہ کی وجہ سے ” یَنْقَلِبُوْا “ منصوب ہوا ہے اور یہ فعل لازم ہے ‘ اس لیے ” خَائِبِیْنَ “ اس کا مفعول نہیں ہوسکتا ‘ بلکہ یہ اس کا حال ہے۔
Top