Mutaliya-e-Quran - Al-A'raaf : 175
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ الَّذِیْۤ اٰتَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَاَتْبَعَهُ الشَّیْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ
وَاتْلُ : اور پڑھ (سناؤ) عَلَيْهِمْ : ان پر (انہیں) نَبَاَ : خبر الَّذِيْٓ : وہ جو کہ اٰتَيْنٰهُ : ہم نے اس کو دی اٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں فَانْسَلَخَ : تو صاف نکل گیا مِنْهَا : اس سے فَاَتْبَعَهُ : تو اس کے پیچھے لگا الشَّيْطٰنُ : شیطان فَكَانَ : سو ہوگیا مِنَ : سے الْغٰوِيْنَ : گمراہ (جمع)
اور اے محمدؐ، اِن کے سامنے اُس شخص کا حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا مگر وہ ان کی پابندی سے نکل بھاگا آخرکار شیطان اس کے پیچھے پڑ گیا یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا
[ وَاتْلُ عَلَيْهِمْ : اور آپ پڑھ کر سنائیں ان کو ] [ نَبَاَ الَّذِيْٓ: اس کی خبر ] [ اٰتَيْنٰهُ : ہم نے دیں جس کو ] [ اٰيٰتِنَا : اپنی نشانیاں ] [ فَانْسَلَخَ : پھر وہ سٹک گیا ] [ مِنْهَا : ان سے ] [ فَاَتْبَعَهُ : پھر پیچھے لگا اس کے ] [ الشَّيْطٰنُ : شیطان ] [ فَكَانَ : تو وہ ہوگیا ] [ مِنَ الْغٰوِيْنَ : گمراہوں میں سے ] س ل خ : (ف) ۔ سلخا ۔ کسی چیز کی کھال کھینچنا ۔ کسی چیز میں سے کسی چیز کو کھینچ کر نکالنا ۔ وایۃ الہم الیل نسلخ منہ النھار [ اور ایک نشانی ان کے لیے رات ہے ۔ ہم کھینچ لیتے ہیں اس سے دن کو ] 36:37 ۔ (انفعال) انسلاخا ۔ (1) کسی کا کسی چیز سے نکل جانا۔ سٹک جانا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 175 ۔ (2) کسی چیز کا گزر جانا ۔ فاذا انسلخ الاشھر الحرم [ پھر جب گزر جائیں محترم مہینے ] 9:5 ۔ نوٹ۔ 1: آیت ۔ 175 کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی خاص شخص کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ لیکن نہ تو قرآن مجید میں اور نہ ہی کسی حدیث میں یہ بتایا گیا کہ وہ شخص کون تھا ۔ مفسرین نے مختلف نام لئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خاص شخص تو پردہ میں ہے، البتہ یہ مثال ہر اس شخص پر چسپاں ہوتی ہے جس میں یہ صفات پائی جاتی ہوں (تفہیم القرآن ) اس لیے کسی شخص کو تلاش کرنے کے بجائے ہمیں اس کردار کو پہچاننے اور اس سے سبق حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ، کیونکہ یہ کردار ہر معاشرے اور ہر دور میں پایا جاتا ہے ۔ اس پہلو سے جب ہم آیات زیر مطالعہ پر غور کرتے ہیں تو مذکورہ کردار کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی ۔ اللہ تعالیٰ کا کسی انسان کو آیات دینے کا مطلب ہے نشانیوں کا علم کرنا ۔ جن کی مدد سے انسان اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرتا ہے اور جس کا منطقی تقاضہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کی جستجو کرے اور اس کی ناراضگی سے بچنے کی سعی کرے ۔ کوئی شخص اگر اس تقاضے کو پورا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی شخصیت اور کردار کو بلندی عطا کرتا ہے ۔ لیکن جو اس تقاضے کو پورا نہیں کرتا اور اپنی خواہشات کو ہی ترجیح دیتا ہے تو گویا وہ اپنے علم اور معرفت کے دائرے سے نکل گیا ۔ اسی کو فانسلخ کہا گیا ہے ۔ اس رویہ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان ہمیشہ کے لیے زمین ہی کی طرف مائل ہوجائے یعنی دنیا کے سازوسامان اور عیش و آرام کی ہی جستجو کرتا رہے ۔ ایسے شخص کو کتے کی مانند کہا گیا ہے کیونکہ کتے کے نظام تنفس کی یہ خصوصیت ہے کہ جب وہ تازہ ہوا اندر کھینچتا ہے تو اس میں موجود آکسیجن سے اسے تسکین نہیں ہوتی ۔ اس لیے وہ جلدی سے ہوا باہر نکال کر دوبارہ تازہ ہوا کھینچتا ہے ۔ اس عمل کے تسلسل سے اس پر ہانپنے کی کیفیت طاری رہتی ہے ۔ اسی طرح جب کوئی شخص دنیا کا ہی ہو کر رہ جاتا ہے تو اسے دنیاوی سازوسامان سے تسکین حاصل نہیں ہوتی ۔ بلکہ وہ ھل من مزید کی ہوس میں گرفتار ہوکر ہر وقت ہانپنے کی کیفیت کا شکار رہتا ہے ۔ دنیا کا ہی ہو رہنے یعنی اخلد الی الارض میں اصل خرابی کا ذہن میں واضح ہونا ضروری ہے کیونکہ اسلام تارک الدنیا ہونے سے منع کرتا ہے اور اس کے برعکس دنیاوی ساز و سامان کو استعمال کرنے کی تاکید کرتا ہے ۔ مثلا آیات 57: 27 ۔ 7:31 تا 33 ۔ 67: 15 وغیرہ ۔ حقیقت یہ ہے کہ گنتی کی چند حرام چیزوں کو چھوڑ کر باقی اشیاء نہ تو بذات خود بری ہیں اور نہ ان کا استعمال میں کوئی برائی ہے ۔ برائی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ان کو زندگی کے ذریعہ کے طور پر استعمال کرنے کی بجائے ہم ان کو زندگی کا مقصد بنا بیٹھتے ہیں ۔ اس بات کی اہمیت کے پیش نظر اسے مزید سمجھ لیں۔ کھانا پینا ، سونا جاگنا، بچے پیدا کرنا اور پھر مرجانا۔ یہ وہ سطح ہے جس پر جانور زندگی بسر کرتے ہیں ۔ انسانوں کے لیے زندگی گزارنے کا یہ انداز انسانیت کی توہین ہے۔ عقل وفہم کی صلاحیتوں کی بنیاد پر انسان کو اشرف المخلوقات کا رتبہ ملا ہے ۔ اس کا تقاضہ ہے کہ انسان کسی نصب العین کو اپنا مقصد زندگی بنائے اور دنیا کے سازوسامان کو اس کے حصول کا ذریعہ بنائے ۔ بلند ترین نصب العین یہ ہے کہ انسان اپنے حاجت روا ، مشکل کشا اور روزی رساں کو پہچانے اور اس کی رضا و خوشنودی کو اپنی زندگی کا مقصد بنائے ۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے زندگی کو برقرار رکھنا اور جسمانی وذہنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا انسان کی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کی غرض سے جب وہ دنیا کی اشیاء کو استعمال کرتا ہے تو ان میں غذا کی تاثیر ہوتی ہے یعنی ان کے استعمال سے تسکین بھی حاصل ہوتی ہے اور صلاحیتیں بھی پروان چڑھتی ہیں ۔ آیت ۔ 176 میں اسی حقیقت کی طرف ہماری رہنمائی کی گئی ہے ۔ لیکن جب انسان ذرائع زندگی کو ہی اپنا مقصد زندگی بنا بیٹھتا ہے تو پھر انہیں اشیاء میں نشہ کی تاثیر پیدا ہوجاتی ہے۔ یعنی ان کے استعمال سے نہ تو تسکین حاصل ہوتی ہے اور نہ صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں ۔ بلکہ ان میں انحطاط کا عمل شروع ہوجاتا ہے ، اس بات کو یوں سمجھیں کہ انگور ایک خوش ذائقہ اور صحت بخش غذا ہے ۔ لیکن یہی انگور جب گل سڑ جاتا ہے تو اس میں نشہ پیدا ہوجاتا ہے ۔ یعنی نہ اس میں تسکین رہتی ہے اور نہ ہی یہ صحت بخش رہتا ہے ۔ یہی مثال دنیا کے باقی سازوسامان کی ہے ۔ بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ دنیا کو مقصد زندگی بنانے والوں کی صلاحیتیں تو خوب پروان چڑھتی ہیں اور یہ لوگ دنیا میں تو بڑے کامیاب ہوتے ہیں ۔ لیکن تھوڑا سا غور کرنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بلڈ پریشر ، شوگر ، ہارٹ ، بائی پاس ، اعصابی امراض اور نفسیاتی پیچیدگیوں وغیرہ کے امراض میں مبتلا ہونے والوں کی غالب اکثریت ایسے ہی کامیاب لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے ۔ پھر تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ایسے لوگوں کے جسمانی انحطاط کا آغاز تو بہت پہلے ہوجاتا ہے ، البتہ اس کا نتیجہ ظاہر ہونے میں ایک ، وقفہ حائل ہوتا ہے ۔ ان کے ذہنی انحطاط کی علامت یہ ہے کہ آج کے ماہرین انسانوں کے کسی مسئلہ کو جب حل کرتے ہیں تو اس سے نئے مسائل جنم لیتے ہیں ۔ پھر ان کے حل سے مزید مسائل وجود میں آتے ہیں ۔ یہ وہ کیفیت ہے جس پر کتے کے نظام تنفس کی مثال پوری طرح چسپاں ہوتی ہے ۔ اور ان کے کردار کے انحطاط پر بات کرنا حد ادب ہے ۔ آج اخلد الی الارض یعنی حب دنیا نے انسانوں کی اکثریت کو تسکین سے محرومی اور ھل من مزید کی ہوس میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ اس مشاہدے نے معاشیات کے اس اصول کو جنم دیا ہے کہ Human Wants Are lnsatiabli (انسانی ضروریات قابل تسکین نہیں ہیں ) ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ ایک انسانی ضرورت پوری ہوتی ہے تو کوئی دوسری ضرورت جنم لے لیتی ہے اور یہ ایک سلسلہ لامتناہی ہے۔ لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اصول میں لفظ wants دوھاری تلوار ہے ۔ ایک طرف تو اس کا اطلاق human Needs (انسانی ضروریات ) پر ہوتا ہے اور دوسری طرف یہ Human Desires (انسانی خواہشات ) پر بھی منطبق ہوتا ہے ۔ اس وجہ سے انسانی ضروریات اور خواہشات آپس میں گڈمڈ ہوکر ایک ہی چیز نظر آنے لگتی ہیں ، جبکہ یہ دونوں مختلف چیزیں ہیں ۔ اس لیے لفظ Wants کو نکال کر اگر یہی اصول اس طرح بیان کیا جائے کہ انسانی خواہشات قابل تسکین نہیں ہیں تو یہ بات درست ہے ۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ انسانی ضروریات قابل تسکین نہیں ہیں تو یہ بات بالکل غلط ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایک لفظ Wants نے کیا قیامت ڈھائی ہے اور انسانوں کو کیسی سنگین غلط فہمی میں مبتلا کر رکھا ہے ، جس کی وجہ سے آج انسانیت کیسے کیسے دکھ جھیل رہی ہے ۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان اخلد الی الارض یعنی حب دنیا کی حقیقت کو پہنچاننے اور اس سے بچنے کے لیے شعوری طور پر اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرے کیونکہ اس کا انجام بڑا حسرتناک ہے ۔ ایک مقولے میں تھوڑی سی ترمیم کرکے اس کی حقیقت کو آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ HUBBE Dunya is Just Like a Cigarette . Which Burns With Flame And End ln Ashes
Top