Al-Qurtubi - Ar-Ra'd : 6
وَ یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ وَ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمُ الْمَثُلٰتُ١ؕ وَ اِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ مَغْفِرَةٍ لِّلنَّاسِ عَلٰى ظُلْمِهِمْ١ۚ وَ اِنَّ رَبَّكَ لَشَدِیْدُ الْعِقَابِ
وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ : اور وہ تم سے جلدی مانگتے ہیں بِالسَّيِّئَةِ : برائی (عذاب) قَبْلَ الْحَسَنَةِ : بھلائی (رحمت) سے پہلے وَ : اور حالانکہ قَدْ خَلَتْ : گزر چکی ہیں مِنْ : سے قَبْلِهِمُ : ان سے قبل الْمَثُلٰتُ : سزائیں وَاِنَّ : اور بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب لَذُوْ مَغْفِرَةٍ : البتہ مغفرت والا لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے عَلٰي : پر ظُلْمِهِمْ : ان کا ظلم وَاِنَّ : اور بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب لَشَدِيْدُ الْعِقَابِ : البتہ سخت عذاب دینے والا
اور یہ لوگ بھلائی سے پہلے تم سے برائی کے جلد خواستگار (یعنی طالب عذاب ہیں) حالانکہ ان سے پہلے عذاب (واقع) ہوچکے ہیں۔ اور تمہارا پروردگار لوگوں کو باوجود انکی بےانصافیوں کے معاف کرنے والا ہے اور بیشک تمہارا پروردگار سخت عذاب دینے والا ہے۔
آیت نمبر 6 تا 7 قولہ تعالیٰ : ویستعجلونک بالسیئۃ قبل الحسنۃ یعنی اپنے انکار اور تکذیب کی زیادتی کی وجہ سے عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایک قول کے مطابق اس سے مراد ان کا یہ قول ہے : اللہھم ان کان ھذا ھو الحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السمآء (الانفال : 32) یا اللہ ! اگر تیری طرف سے یہی حق ہے تو ہمارے اوپر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا۔ حضرت قتادہ نے کہا : انہوں نے معافی سے پہلے سزا کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ پروردگار عالم نے اس امت سے سزا کو قیامت تک مؤخر کرنے کا فیصلہ فرما دیا ہے۔ ایک قول کے مطابق : قبل الحسنۃ سے مراد قبل الایمان ہے جس کی وجہ سے امان اور نیکیوں کی امید ہوتی ہے۔ المثلث سے مراد عقوبات ہیں۔ اس کا واحد مثلۃ ہے۔ اعمش سے روایت ہے کہ اس نے المثلات میم کے ضمہ اور ثا کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ مثلہ کی جمع ہے اور المثلات بھی صحیح ہے یعنی ضمہ کے ثقیل ہونے کی وجہ سے ضمہ کو فتحہ سے تبدیل کردیا جائے۔ ایک قول یہ ہے : ھا کے عوض فتحہ کو لایا جاتا ہے۔ اعمش سے یہ بھی روایت ہے کہ اس نے المثلات میم کے فتحہ اور ثا کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے۔ تو یہ مثلہ کی جمع ہے پھر ضمہ کے ثقل کے باعث ضمہ کو حذف کردیا گیا۔ نحاس (رح) نے یہ سب کچھ بیان کیا ہے۔ جماعت کی قرأت کے مطابق اس کا واحد مثلہ ہے جیسے صدقہ اور بنو تمیم ثا اور میم دونوں کو ضمہ دیتے ہیں، ان کی لغت کے مطابق اس کا واحد مثلہ یعنی میم کے ضمہ اور ثا کے جزم کے ساتھ ہے ؛ جیسے غرفۃ اور غرفات۔ اور اس سے فعل مثلث، امثل، مثلاً میم کے فتحہ اور ثا کے سکون کے ساتھ آتا ہے۔ وان ربک لذو مغفرۃ یعنی مشرکین کے ایمان لانے کی صورت میں ان سے درگزر کرنے والا اور گناہگاروں کی توجہ کی صورت میں انہیں معاف فرما نے والا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : میں اللہ تعالیٰ کی کتاب کی آیت وان ربک لذو مغفرۃ للناس علی ظلمہم سے امید رکھتا ہوں۔ وان ربک لشدید العقاب جب وہ کفر پر اصرار کرتے ہیں تو تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ حماد بن سلمہ نے علی بن زید سے عن سعید بن مسیب بیان کیا ہے کہ آپ نے کہا : جب وان ربک لذو مغفرۃ للناس علیٰ ظلمہم وان ربک لشدید العقاب نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” اگر اللہ کی معافی، رحمت اور درگزر کا سلسلہ نہ ہوتا تو کسی کی زندگی پر سکون نہ ہوتی اور اگر اس کی سزا، وعید اور عذاب نہ ہوتا تو ہر ایک توکل کرلیتا “۔ ویقول الذین کفروا لولا یعنی ھلا، انزل علیہ ایۃ من ربہ، جب انہوں نے آیات کی خواہش کی اور ان کا مطالبہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو فرمایا : انما انت منذر، منذر کا معنی معلم ہے۔ ولکل قوم ھاد یعنی ایسا نبی جو ان کو اللہ کی طرف بلاتا ہے۔ ایک قول کے مطابق اس سے مراد ہے الھادی اللہ۔ یعنی آپ پر انذاد لازم ہے اور اگر اللہ تعالیٰ ہدایت دینا چاہے تو اللہ ہر قوم کا ہادی ہے۔
Top