Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Kahf : 77
فَانْطَلَقَا١ٙ حَتّٰۤى اِذَاۤ اَتَیَاۤ اَهْلَ قَرْیَةِ اِ۟سْتَطْعَمَاۤ اَهْلَهَا فَاَبَوْا اَنْ یُّضَیِّفُوْهُمَا فَوَجَدَا فِیْهَا جِدَارًا یُّرِیْدُ اَنْ یَّنْقَضَّ فَاَقَامَهٗ١ؕ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَتَّخَذْتَ عَلَیْهِ اَجْرًا
فَانْطَلَقَا
: پھر وہ دونوں چلے
حَتّٰٓي
: یہاں تک کہ
اِذَآ اَتَيَآ
: جب وہ دونوں آئے
اَهْلَ قَرْيَةِ
: ایک گاؤں والوں کے پاس
اسْتَطْعَمَآ
: دونوں نے کھانا مانگا
اَهْلَهَا
: اس کے باشندے
فَاَبَوْا اَنْ
: تو انہوں نے انکار کردیا کہ
يُّضَيِّفُوْهُمَا
: وہ ان کی ضیافت کریں
فَوَجَدَا
: پھر انہوں نے پائی (دیکھی)
فِيْهَا جِدَارًا
: اس میں (وہاں) ایک دیوار
يُّرِيْدُ
: وہ چاہتی تھی
اَنْ يَّنْقَضَّ
: کہ وہ گرپڑے
فَاَقَامَهٗ
: تو اس نے اسے سیدھا کردیا
قَالَ
: اس نے کہا
لَوْ شِئْتَ
: اگر تم چاہتے
لَتَّخَذْتَ
: لے لیتے
عَلَيْهِ
: اس پر
اَجْرًا
: اجرت
پھر وہ دونوں چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں والوں کے پاس پہنچے، اور ان سے کھانا طلب کیا، مگر انہوں نے ان کی ضیافت کرنے سے انکار کردیا۔ پھر انہوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو (جھک کر) گرا چاہتی تھی، خضرنے اس کو سیدھا کردیا (موسیٰ نے کہا) اگر آپ چاہتے تو (اس کام) کا معاوضہ لیتے (تاکہ) کھانے کا کام چلتا
مسئلہ نمبر
1
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : حتی اذا اتیا اھل قریۃ صحیح مسلم میں حضرت ابی بن کعب سے مروی ہے۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے ” لئام “ کا لفظ روایت کیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت خضر (علیہ السلام) مجالس میں گھومتے تھے اور ان سے کھانا طلب کیا تو انہوں نے میزبانی کرنے سے انکار کیا، پھر ان دونوں نے ایک جھکی ہوئی دیوار دیکھی تو حضرت خضر (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ سے درست کردیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : ہم اس قوم کے پاس آئے انہوں نے نہ ہماری میزبانی کی اور نہ کھانا کھلایا، اگر آپ چاہتے تو اس پر محنت ہی طلب کرلیتے، تو حضرت خضر علیہ السللام نے کہا : یہ تمہاری اور میری جدائی کا وقت ہے، میں تجھے ان باتوں کی حقیقت سے آگاہ کرتا ہوں جن پر تم صبر نہ کرسکے۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السللام پر رحم فرمائے میری خواہش تھی کہ آپ صبر کرتے حتیٰ کہ ہم پر ان کے واقعات و اخبار ذکر کی جاتیں “ (
1
) مسئلہ نمبر
2
اس گائوں کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض نے فرمایا : وابلۃ (ایلہ) تھا : یہ قتادہ کا قول ہے، اسی طرح محمد بن سیرین نے کہا ہے : یہ بخیل ترین لوگوں کا گائوں تھا اور آسمان سے یعنی اس کی رحمت سے بہت دور تھا۔ بعض نے کہا : یہ انطاکیہ کا گائوں تھا۔ بعض نے کہا : اندلس کا جیزرہ تھا ؛ یہ حضرت ابوہریرہ وغیرہ سے مروی ہے۔ یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ یہ سبز جزیرہ تھا۔ ایک جماعت نے کہا : یہ باجروان تھا یہ آذر بائیجان کے قریب ہے۔ سہیلی نے حکایت کیا ہے فرمایا : یہ برقۃ ہے۔ ثعلبی نے کہا : یہ روم کے دیہاتوں میں سے ایک دیہات تھا، اسے ناصرہ کہا جاتا تھا : اس کی طرف نصاریٰ منسوب ہیں۔ یہ سب اس اختلاف کی بنا پر ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ کس علاقہ میں ہوا ؟ حقیقت حال اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ مسئلہ نمبر
3
۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جب حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بیٹیوں کی بکریوں کو پانی پلایا تھا تو اس وقت انہیں کھانے کی زیادہ ضرورت تھی بنسبت اس وقت کے جب حضرت خضر (علیہ السلام) کے ساتھ دیہات میں آئے تھے، اس وقت تو انہوں نے خوراک طلب نھ ہیں کی تھی بلکہ پہلے بکریوں کو پانی پلایا تھا اور یہاں خوراک کا سوال کیا ہے۔ اس مسئلہ میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ ایک یہ ہے کہ مدین کے سفر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اکیلے تھے اور یہاں حضرت خضر (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی اتباع میں تھے۔ میں کہتا ہوں : اس معنی کی بنا پر آیت کی ابتدا میں اپنے نوجوان کو بھی کہا تھا : اتنا غدآء نا لقد لقینا من سفر ناھذا نصبا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھوک کا اظہار کیا اپنے ساتھی یوشع کی رعایت کرتے ہوئے۔ واللہ اعلم۔ بعض علماء نے فرمایا : جب یہ سفر تا دیب تھا تو انہیں مشقت میں مبتلا کیا گیا اور وہ سفر، سفر ہجرت تھا تو ان کی خوراک کے ذریعے مدد اور نصرت کے سپرد کیے گئے۔ مسئلہ نمبر
4
۔ اس آیت میں خوراک کے سوال کرنے پر دلیل ہے، اگر کوئی شخص بھوکا ہو تو اسے وہ چیز طلب کرنی چاہیے جو اس کی بھوک کو ختم کر دے، جبکہ جہال صوفیاء اس کے مخالف ہیں۔ الاستطعام کا معنی کھانا طلب کرنا ہے، یہاں مراد ضیافت کا سوال ہے، اس کی دلیل یہ ارشاد ہے : فابوا ان یضیفوھما۔ اسی وجہ سے اس گائوں والے مذمت کے مستحق ٹھہرے اور کمینگی اور بخل کی طرف منسوب کیے گئے جیسا کہ ہمارے نبی پاک ﷺ نے ان کے متعلق فرمایا ہے۔ قتادہ نے اس آیت کے بارے میں فرمایا : بدترین وہ گائوں ہے جس میں مہمان کی مہمان نواز نہیں کی جاتی اور مسافر کا حق نہیں پہنچایا جاتا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ضیافت ان پر واجب تھی۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے ان سے اس کا مطالبہ کیا جو ضیافت میں سے واجب تھا۔ انبیاء کی حالت اور فضلا و اولیاء کے منصب کے یہی لائق ہے۔ ضیافت کے بارے میں قول سورة ہود میں گزر چکا ہے۔ الحمد للہ۔ اللہ تعالیٰ حریری ٭ کو معاف کرے جس نے اس آیت میں مناسب گفتگو نہیں کی، اس سے اس میں لغزش ہوئی ہے، اس نے اس آیت سے اصرار کیا ہے اور ایسا کرنے والے پر یہ عیب نہیں ہے اور اس پر کوئی نقص نہیں ہے، اس نے کہا : وان رددت فما فی الرد منقصت علیک وزد موسیٰ قبل والخضر میں کہتا ہوں : یہ دین کے ساتھ مزاح ہے اور انبیاء کرام کے احترام میں کوتاہی ہے، یہ ادبی لغزش ہے اور نا مناسب قول ہے۔ اللہ تعالیٰ سلف صالحین پر رحم فرمائے، انہوں نے ہر ذی عقل کو عصیت کرنے میں مبالغہ کیا ہے، انہوں نے کہا : جب تو کسی چیز سے کھیلنے والا ہو تو دین سے کھیل سے اجتناب کر۔ مسئلہ نمبر
5
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : جداراً ۔ الجدار والجدر دونوں کا ایک معنی ہے، حدیث شریف میں ” حتی یبلغ الماء الجدر “ (
1
) حتیٰ کہ پانی کھیت کی وٹوں تک پہنچ جائے۔ مکان جدیر بنی حوالیہ جدار۔ بہتر مکان وہ ہے جس کے اردگرد دیوار بنائی گئی ہو، اصل معنی اٹھانا ہے۔ اجدرت الشجرۃ، درخت نکل آیا، اسی سے الجدریّ ہے۔ مسئلہ نمبر
6
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یرید ان ینقض گرنے کے قریب تھی، یہ مجاز ہے اس کی تفسیر حدیث میں (مائل) کے قول سے کی گئی ہے، اس میں دلیل ہے کہ قرآن میں مجاز موجود ہے، یہی جمہور کا مذہب ہے، وہ تمام افعال جن کا حق یہ ہے کہ وہ زندہ ناطق کے لیے ہوں جب وہ جمادات اور چوپائوں کی طرف منسوب ہوں تو وہ مجاز ہوگا یعنی اگر ان کی جگہ انسان ہوتا تو وہ اس فعل کے مناسب ہوتا۔ کلام عرب میں مجاز کثیر ہے، اسی سے اعشی کا قول ہے : اتنتھون ولا ینھی ذوی شطط کالطعن یذھب فیہ الزیت والفتل اعشی نے نہی کو الطعن کی طرف منسوب کیا ہے۔ اور ایک شاعر نے کہا : یرید الرمح صدر ابی برائ ویرغب عن دماء بنی عقیل (
1
) اس میں فعل یرید کی نسببت الرمح (نیزہ) کی طرف ہے۔ ایک اور شاعر نے کہا : ان دھرا یلف شملی بجمل لزمان یھم بالاحسان ایک اور شاعر نے کہا : فی مھمۃ فلقت بہ ھا ماتھا فلق الفوس اذا اردن نصولا یہ عربوں کے قول : نصل السیف سے مشتق ہے جب وہ نشانہ پر لگ جائئے تلواروں کے ان کے سروں پر واقع ہونے پر زمین میں ہتھوڑے کے واقع ہونے کے ساتھ تشبیہہ دی گئی ہے۔ ہتھوڑا زمین میں واقع ہوتا ہے تو جلدی نکلتا نہیں۔ حضرت حسان بن ثابت نے کہا : لو ان اللوم ینسب کان عبدا قبیح الوجہ اعور من ثقیف عشرہ نے کہا : فازور من وقع القنا بلبانہ وشکا الی بعبرۃ تحمحم اس معنی کی تفسیر اس قول سے بھی ہوتی ہے : لو کان یدری ما المحاورۃ اشتکی اس مفہوم میں بہت سی مثالیں موجود ہیں، اسی سے لوگوں کا قول ہے : إن داری تنظر الی دارفلان۔ دیکھنے کی نسبت دار کی طرف کی گئی ہے۔ حدیث میں ہے۔ اشتکت النار الی ربھا۔ (
2
) شکایت کی نسبت آگ کی طرف کی گئی ہے، ایک قوم نے قرآن میں مجاز سے منع کیا ہے، ان میں ابو اسحاق اسفرائینی، ابوبکر محمد بن دائود اصبہانی وغیرہ ہما ہیں، کیونکہ اللہ کا کلام اور اس کے نبی پاک ﷺ کے کلام کو حقیقت پر محمول کرنا اولیٰ ہے، کیونکہ وہ حق بیان کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے، نیز ان علمائء نے اس سے بھی حجت پکڑی ہے کہا : اگر اللہ تعالیٰ مجاز سے ہمیں خطاب فرماتا ہے تو اسے متجوز کہنا بھی لازم آئے گا۔ اور حقیقت سے مجاز کی طرف عدول، حقیقت سے عجز کا تقاضا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نسبت کرنا محال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یوم تشھد علیہم السنتھم وایدیھم وارجلھم بما کانوا یعملون (النور) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وتقول ھل من مزید۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اذا راتھم من مکان بعید سمعوا لھا تغیظا وزفیرا۔ (الفرقان) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : تدعوامن ادبرو تولیٰ ۔ (المعارج) اور حدیث شریف میں ہے : ” اشتکت النار إلی ربھا “ آگ نے اپنے رب کی بارگاہ میں شکایت کی۔ اور حدیث میں ہے : ” واحتجت النار والجنۃ “ دوزخ اور جنت کا مناظرہ ہوا۔ اور اس کی مثل سب حقیقت ہیں اور ان کا خالق وہ ہے جس نے ہر چیز کو بولنے کی قوت بخشی۔ صحیح مسلم میں ہے (
1
) حضرت انس نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں : ” انسان کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کی ران کو کہا جائے گا تو بول پس اس کی ران، اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے اعمال کے بارے میں بولیں گی تاکہ اللہ اس کا عذر زائل کر دے یہ وہ منافق ہے اور یہ وہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوگا۔ ” اور یہ آخرت میں ہوگا، اور رہا دنیا میں تو ترمذی میں حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے (
2
) کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، قیامت قائم نہ ہوگی حتیٰ کہ درندے، انسانوں سے کلام کریں گے اور حتیٰ کہ انسان سے اس کے کوڑے کا پھندا اور اس کی جوتی کا تسمہ بات کرے گا اور اس کی ران اسے وہ سب کچھ بتائے گی جو اس کے گھر والوں نے اس کے بعد کیا۔ “ ابو عیسیٰ نے کہا : حضرت ابوہریرہ سے بھی یہ حدیث مروی ہے، یہ حدیث حسن غریب ہے۔ مسئلہ نمبر
7
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاقامہ بعض علماء نے فرمایا : پہلے دیوار کو گرایا پھر اسے بنایا پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت خضر (علیہ السلام) سے کہا : اگر تو چاہتا تو اس پر اجرت ہی لے لیتا، کیونکہ یہ ایسا فعل تھا جو اجر کا مستحق تھا۔ ابوبکر انباری نے حضرت ابن عباس ؓ سے انہوں نے ابوبکر سے انہوں نے نبی پاک ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ نے پڑھا : ” فوجدافیھا جداریرید أن ینقض فھدمہ ثم قعد یبینیہ “ ابوبکر نے کہا : اس حدیث کی اگر سند صحیح ہے تو یہ نبی پاک ﷺ کی طرف سے قرآن کی تفسیر کے قائم مقام ہوگی۔ بعض ناقلین نے تفسیر کی جگہ میں قرآن کو داخل کردیا کہ یہ قرآن ہے، مصحف عثمان سے کمی ہوئی ہے، جیسا کہ بعض طعن کرنے والوں نے کہا ہے۔ سعید بن جبیر نے کہا : حضرت خضر (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ سے دیوار کو مس کیا اور اسے سیدھا کیا تو وہ سیدھی ہوگئی، یہ قول صحیح ہے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے افعال کی زیادہ مناسب ہے بلکہ اولیاء کی شان کے بھی زیادہ مناسب ہے۔ بعض اخبار میں ہے : اس دیوار کی اونچائی اس صدی کے تیس ذراع کے برابر تھی اور طول پانچ سو ہاتھ کے برابر تھا، تو سیدھی کھڑی ہوگئی ؛ یہ ثعلبی نے کتاب العرائس میں بیان کیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت خضر (علیہ السلام) سے کہا : اگر آپ چاہتے تو اس پر اجر ہی لے لیتے، یعنی کھانا لے لیتے جسے ہم کھاتے اس میں اولیاء کی کرامات پر دلیل ہے۔ اسی طرح واقعہ میں حضرت خضر (علیہ السلام) کے احوال میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ سب خارق العادات امور ہیں۔ یہ اس صورت میں ہے جب ہم انہیں ولی تسلیم کریں، نبی تسلیم نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وما فعلتہ عن امری یہ ان کی نبوت کی دلیل ہے انہیں تکلیف اور احکام کی وحی کی جاتی تھی جس طرح انبیاء کو وحی کی جاتی ہے مگر وہ رسول نہیں تھے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر
8
۔ انسان پر واجب ہے کہ جھکی ہوئی دیوار کے نیچے نہ بیٹھے جس کے گرنے کا اندیشہ ہو بلکہ وہاں سے گزرے تو جلدی چلے کیونکہ نبی کریم ﷺ کی حدیث میں ہے : ” جب تم میں سے کوئی بلند جھکی ہوئی دیوار کے پاس سے گزرے تو اسے جلدی چلنا چاہیے “ ٭ ابو عبیدہ قاسم بن سلام نے کہا : ابو عبیدہ کہتے تھے : الطریال کا لفظ عجمیوں کی بلڈنگ کے مشابہ ہے جیسے گرجا گھر اور بلند عمارت، جریر نے کہا : الوی بھا شذب العروق مشذب فکانما وکنت علی طربال کہا جاتا ہے : وکن یکن جب کوئی بیھے۔ صحاح میں ہے : الطربال دیوار کا بلند ٹکڑا، پہاڑ کی جھکی ہوئی بڑی چٹان۔ طرابیل الشام۔ شام کے گرجے۔ کہا جاتا ہے : طربل بولہ جب اوپر کی طرف لمبا کرے۔ مسئلہ نمبر
9
کرامات اولیاء ثابت ہیں جیسا کہ اخبار ثابتہ اور آیات متواترہ دلالت کرتی ہیں۔ اس کا انکار نہیں کرتا مگر بدعتی، ہٹ دھرم یا فاسق منحرف، قرآن کی آیات مریم (علیہا السلام) کے بارے میں بتاتی ہیں کہ ان کے پاس گرمیوں کے پھل سردیوں میں اور سردیوں کے پھل گرمیوں میں ہوتے تھے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ انہوں نے کھجور کے درخت کو حکم دیا وہ بالکل خشک تھا تو وہ پھلدار ہوگیا۔ حضرت مریم نبیہ نہیں تھیں، اس پر اختلاف ہے۔ اور کرامات پر دلیل حضرت خضر (علیہ السلام) کے ہاتھ پر کشتی کا پھٹنا، غلام کا قتل کرنا اور دیوار کو کھڑا کرنا سب کرامات ہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ کہنا جائز نہیں کہ انہیں نبی کہا جائے کیونکہ نبوت کا ثابت کرنا اخبار احاد کے ساتھ جائز نہیں خصوصاً بغیر کسی احتمال کے اجماع امت سے تواتر کے طریق سے نبی کریم ﷺ کا ارشاد مروی ہے کہ : ” لانبی بعدی “ (
1
) ۔ میرے ببعد کوئی نبی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : خاتم النبیین۔ حضرت خضر علیہ اور حضرت الیاس علیہما السلامیب اس کرامت کے ساتھ باقی ہیں، پس ان دونوں کا غیر نبی ہونا واجب ہے، کیونکہ اگر وہ نبی ہوتے تو ہمارے نبی کے بعد نبی کا ہونا واجب ہوتا مگر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نبی کریم ﷺ کے بعد تشریف لائیں گے اس پر دلیل قائم ہے۔ میں کہتا ہوں : جمہور کا خیال ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) نبی تھے جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے اور ہمارے نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی نہیں یعنی ابتداً آپ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والا کوئی نہیں۔ مسئلہ نمبر
10
لوگوں کا اختلاف ہے کہ کیا ولی جانتا ہے کہ وہ ولی ہے یا نہیں جانتا ؟ علماء کے دو قول ہیں : -
1
قول یہ ہے کہ ولی کے لیے یہ جاننا جائز نہیں اور جو اس کے ہاتھوں پر ظاہر ہو وہ اسے خفیہ تدبیر کی آنکھ سے ملاحظہ کرے کیونکہ ہو سکتا ہے یہ خفیہ تدبیر اور استدراج ہو۔ سری سے حکایت ہے کہ وہ فرماتے تھے : اگر ایک شخص باغ میں داخل ہو اور اس سے درخت کے اوپر سے ایک پرندہ فصیح زبان میں کلام کرے : اے اللہ کے ولی ! تجھ پر سلام ہو، پھر وہ اس سے یہ خوف نہ کرے کہ یہ خفیہ تدبیر ہوگی تو وہ خفیہ تدبیر میں مبتلا کیا گیا ہے، کیونکہ وہ اگر یہ جان لے گا کہ وہ ولی ہے تو اس سے خوف زائل ہوجائے گا اور اسے امن حاصل ہوگا اور ولی کی شرط میں سے ہے کہ اسے ہمیشہ امید ہو کہ اس پر فرشتے نازل ہوں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : تتنزل علیہم المئکۃ الاتخافوا ولا تحزنوا (حم السجدہ :
30
) ، ولی وہ ہوتا ہے جس کا خاتمہ سعادت پر ہو اور عواقب پوشیدہ ہوتے ہیں کوئی شخص نہیں جانتا کہ اس کا خاتمہ کیسا ہوگا، اسی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” انما الاعمال بالخواتیم “ (
1
) ۔ اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہے۔ (
2
) دوسرا قول یہ ہے کہ ولی کے لیے یہ جاننا جائز ہے کہ وہ ولی ہے، کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کے لیے جاننا جائز ہے کہ وہ ولی ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ کوئی دوسرا جان لے کہ وہ ولی ہے تو اس کے لیے خود جاننا بھی جائز ہے۔ نبی کریم ﷺ نے عشرہ مبشرہ صحابہ کو اہل جنت میں ہونے کی خوشخبری دی پھر بھی ان کا خوف زائل نہ ہوا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی زیادہ تعظیم کرنے والے تھے اور انہیں خوف زیادہ تھا، اگر عشرہ مبشرہ صحابہ کے لیے جائز ہے کہ وہ خوف سے نہیں نکلے تو دوسروں کے لیے بھی جائز ہے۔ شبلی کہتے تھے : میں اس جانب سے امان میں ہوں۔ جب شبلی فوت ہوئے اور دفن کردیے گئے تو ویلم ٭ اسی دن دجلہ عبور کر آئے اور بغداد پر غالب آگئے۔ لوگ کہتے تھے : دو مصیبتیں آگئیں : شبلی کی موت اور ویلم کا عبور کرنا۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس میں بھی احتمال ہے کہ یہ بھی استدراج ہو، اگر یہ استدراج ہو جب یہ جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں تو معجزات کا ابطال ہے تو یہ بھی جائز نہیں کیونکہ اس میں کرامات کا ابطال ہے اور بلعام کے ہاتھوں پر کرامات کا ظہور اور پھر اس کے بعد اس کا دین سے خروج کیونکہ آیت میں ہے : فانسلخ منھا، تو آیت میں یہ نہیں ہے کہ وہ ولی تھا پھر اس سے ولایت چلی گئی نیز کرامات کے طور پر جو ظاہر ہوا ہے وہ اخبار احاد ہیں جن سے علم ثابت نہیں ہوتا، واللہ اعلم۔ معجزہ اور کرامت میں فرق یہ ہے کہ کرامت کی شرط میں سے اس کا چھپانا ہے اور معجزہ کی شرط میں سے اس کا اظہار کرنا ہے۔ بعض نے فرمایا : کرامت وہ ہوتی ہے جو بغیر دعویٰ کے ظاہر ہوتی ہے اور معجزہ انبیاء کے دعویٰ کے وقت ظاہر ہوتا ہے ان سے دلیل کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اس کے بعد معجزہ وہ ظاہر کرتا ہے، کتاب کے مقدمہ میں معجزہ کی شرائط گزر چکی ہیں۔ الحمد للہ وحدہ لا شریک لہ۔ ایسی احادیث جو کرامت کے ثبوت پر وارد ہیں ان میں سے ایک وہ بھی ہے جو امام بخاری نے نقل فرمائی ہے (
2
) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے فرمایا : نبی کریم ﷺ نے ایک دن دس آدمیوں کا ایک گروہ بطور جاسوس بھیجا اور ان کا امیر عاصم بن ثابت انصاری کو بنایا تھا۔ یہ عاصم بن عمر بن خطاب کے دادا تھے٭ پس وہ چلے حتیٰ کہ جب ھدأۃ مقام پر پہنچے جو عسفان اور مکہ کے درمیان ہے تو ان کا ذکر ہذیل کے ایک قبیلہ سے کیا گیا جنہیں بنو لحیان کہا جاتا تھا، انہوں نے اپنے دو سو کے قریب تیر انداز تیار کئے۔ وہ ان قدموں کے نشانات دیکھتے ہوئے چلے حتیٰ کہ انہوں نے ان کے کھانے کی جگہ پر کھجوریں پائیں جو مدینہ طیبہ سے لے آئے تھے، وہ کہنے لگے : یہ تو مدینہ کی کھجوریں ہیں وہ ان کے قدموں کے نشانات پر چلے جب عاصم اور اس کے ساتھیوں نے انہیں دیکھا تو وہ ایک بلند جگہ پر چڑھ گئے اور بنو لحیان نے ان کا احاطہ کرلیا، انہوں نے انہیں کہا : تم اتر آئو اور اپنے آپ کو ہمارے حوالے کر دو ہم تمہیں عہد اور وعدہ دیتے ہیں کہ ہم تمہیں قتل نہیں کریں گے۔ عاصم جو اس گروہ کا سردار تھا اس نے کہا : اللہ کی قسم ! میں تو آج کافر کے ذمہ میں نہیں اتروں گا اور دعا کی : اے اللہ اپنہ نبی مکرم ﷺ کو ہماری خبر پہنچا دے۔ بنو لحیان نے تیر مارے اور عاصم اور چھ مزید لوگوں کو قتل کردیا۔ تین مسلمان، ان کے عہد و میثاق پر نیچے اتر آئے تھے وہ حبیب انصاری، ابن دثنہ اور ایک شخص تھا جب وہ ان پر غالب آگئے تو انہوں نے اپنی کمانوں کی رسیاں کھولیں اور انہیں ان سے باندھ دیا تیسرے شخص نے کہا : یہ پہلا غدر ہے، اللہ کی قسم ! میں تمہارے ساتھ نہیں چلوں گا میرے لیے ان مقتولوں کا اسوہ ہے۔ بنو لحیان نے اسے کھینچا اور اسے ساتھ لے جانے کی کوشش کی لیکن اس نے ایسا نہ کیا انہوں نے اسے بھی قتل کردیا وہ حبیب اور ابن دثنہ کو لے کر چلے حتیٰ کہ انہوں نے جنگ بدر کے ببعد مکہ میں انہیں فروخت کردیا۔ بنو حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف نے خبیب کو خریدا، خبیب وہ شخص تھا جس نے حارث بن عامر کو جنگ بدر میں قتل کیا تھا۔ حضرت خبیب ان کے پاس قیدی بن کر رہے۔ عبید اللہ بن عیاض نے بتایا کہ بنت حارث نے انہیں بتایا کہ جب وہ (بنو لحیان) جمع ہوئے تھے تو خبیب نے استرا مانگا جس کے ساتھ وہ اپنے بال صاف کرے تو اس عورت نے اسے استرا دے دیا، پھر وہ کہتی ہے : میں غافل تھی تو میرا بچہ اس کے پاس چلا گیا تو اس نے اسے پکڑ لیا وہ عورت کہتی ہے میں نے خبیب کو دیکھا کہ وہ اس بچے کو اپنی ران پر بٹھائے ہوئے ہے اور استرا اس کے ہاتھوں میں ہے۔ اس عورت نے کہا : میں گھبرا گئی۔ خبیب میری گھبراہٹ میرے چہرے سے پہچان گئئے حضرت خبیب نے کہا کیا : تو خوف کر رہی ہے کہ میں اسے قتل کر دوں گا ؟ میں ایسا نہیں کروں گا، اس عورت نے کہا : اللہ کی قسم ! میں نے خبیب سے بہتر کوئی قیدی نہیں دیکھا اللہ کی قسم ! میں نے ایک دن اسے ہاتھوں میں انگور لے کر کھاتے ہوئے دیکھا حالانکہ وہ لوہے کی زنجیروں کے ساتھ باندھا ہوا تھا اور مکہ میں کوئی پھل نہیں تھا، وہ کہتی تھی : یہ وہ رزق تھا جو اللہ تعالیٰ نے خبیب کو دیا تھا وہ خبیب کو حرم سے باہر لے گئے تاکہ اسے حرم سے نکالیں تو خبیب نے اسے کہا : مجھے چھوڑ دو میں دو رکعتیں ادا کرلوں پھر حضرت خبیب نے دو رکعتیں ادا کیں پھر فرمایا : اگر تم یہ گمان نہ کرتے کہ میں عورت سے ڈر گیا ہوں تو میں رکعتوں کو لمبا کرتا پھر فرمایا : اے اللہ ! ان کو جڑ سے ختم کر دے اور انہیں جدا جدا کر کے قتل کر دے اور ان میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑ پھر کہا : ولست ابالی حین اقتل مسلما علی ای شق کان للہ مصرعی وذلک فی ذات لالہ وان یشا یبارک علی اوصال شلو ممزع مجھے کوئی پروا نہیں ج میں مسلمان ہو کر قتل کیا جائوں گا جس طرف بھی اللہ کی رضا کے لیے میرا گرنا ہوگا۔ یہ ذات الٰہی کے لیے ہے اگر وہ چاہے گا تو اکھڑے ہوئے اعضاء میں بھی برکت ڈال دے گا۔ بنو حارث نے حضرت خبیب کو قتل کردیا، خبیب وہ شخص تھا جس نے ہر مسلمان کے لیے دو رکعت سنت چھوڑیں جو باندھ کر قتل کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عاصم کی دعا قبول فرمائی تھی جب وہ شہید ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کو ان کی شہادت کی خبر پہنچا دی۔ کفار قریش کو جب خبر پہنچی کہ حضرت عاصم قتل ہوگئے ہیں تو انہوں نے کچھ لوگوں کو بھیجا تاکہ وہ عاصم کے جسم سے کچھ کاٹ کرلے آئیں تاکہ وہ اسے پہچان لیں۔ حضرت عاصم نے بدر کی جنگ میں ان کے ایک سردار کو قتل کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عاصم کی حفاظت کے لیے بھیڑوں کو بھیج دیا جنہوں نے ان کی طرف آنے والے افراد سے حضرت عاصم کی حفاظت کی وہ ان کا گوشت کاٹنے پر قادر نہ ہوئے (
1
) ۔ ابن اسحاق نے اس واقعہ میں ذکر کیا ہے کہ حضرت عاصم بن ثاببت جب شہید ہوگئے تو ہذیل نے ارادہ کیا کہ ان کا سر کاٹ لیں تاکہ اسے سلافۃ بنت سعد کے ہاں فروخت کریں اس نے نذر مانی تھی جب حضرت عاصم نے اس کے بیٹوں کو جنگ احد میں قتل کیا تھا کہ اگر وہ اس کے سر پر قادر ہوئی تو اس کی کھوپڑی میں شراب پیئے گی تو بھیڑوں نے حضرت عاصم کی حفاظت کی، جبب بھیڑیں حائل ہوگئیں تو انہوں نے کہا : اسے چھوڑ دو حتیٰ کہ شام ہوجائے تو شام کے وقت بھیڑیں چلی جائیں گی پھر ہم اس کو کاٹ لیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے وادی کو حکم دیا تو اس نے حضرت عاصم کو اٹھا لیا اور وہ غائب ہوگئے۔ حضرت عاصم نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا تھا کہ وہ کسی مشرک کو نہ چھوئیں گے اور نہ کوئی مشرک انہیں چھوڑے گا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی وفات کے بعد محفوظ فرمایا اس سے جس سے وہ زندگی میں بچتے رہے۔ عمرو بن امیہ ضمری سے کروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے انہیں تنہا بطور جاسوس بھیجا فرمایا میں خبیب کی سولی کے پاس آیا میں اس پر چڑھا میں دیکھنے والوں سے ڈر رہا تھا، میں نے خبیب کو سولی سے کھولا تو وہ زمین پر گرے پھر میں اترا پھر میں تھوڑا سا دور ہوا پھر میں متوجہ ہوا تو زمین نے اسے نگل لیا تھا۔ ایک روایت میں یہ زیادتی ہے کہ آج تک خبیب کی قبر کا ہم سے ذکر نہیں کیا گیا۔ یہ بیہقی نے ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر
11
۔ یہ کوئی ناپسندیدہ بات نہیں کہ ولی کے لیے مال اور جائیداد ہو جس کے ساتھ وہ اپنی ذات اور عیال کی حفاظت کرے۔ صحابہ کرام کی ذوات میں تیرے لیے اسوہ کافی ہے کہ ان کی ولایت و فضیلت کے باوجود ان کے اموال تھے اور وہ دوسروں پر حجت تھے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں (
2
) فرمایا : ” ایک شخص صحرا میں تھا اس نے بادل میں ایک آواز سنی فلاں کے باغ کو پانی پلا، وہ بادل چلا اور پتھریلے ٹیلے میں اپنا پانی برسایا وہاں جو پانی کا نالا تھا وہ پانی سے بھر گیا وہ شخص اس پانی کے پیچھے پیچھے چلا تو کیا دیکھا ایک آدمی کسی کے ساتھ پانی کو پھیر رہا ہے پوچھا : اے اللہ کے بندے ! تیرا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا : فلاں، وہ نام ذکر کیا جو اس نے بادل کے اندر سے سنا تھا۔ اس نے کہا : اے اللہ کے بندے ! تو نے میرا نام کیوں پوچھا ہے ؟ اس نے کہا : میں نے اس بادل میں آواز سنی تھی جس کا یہ پانی ہے۔ وہ کہہ رہا تھا : فلاں کے باغ کو پانی پلا، اس نے تیرا نام لیا تھا، تو اس میں کیا کرتا ہے ؟ اس نے کہا جب تو کہتا ہے (تو سن) میں اس باغ کی کل پیداوار کو دیکھتا ہوں پھر اس سے ایک تہائی صدقہ کرتا ہوں ایک تہائی میں اور میرا عیال کھاتے ہیں اور ایک تہائی اس میں پھر کاشت کرتا ہوں۔ “ ایک روایت میں ہے : ” اس کا ایک تہائی مسکین، سائلین اور مسافروں کے لیے رکھتا ہوں۔ “ (
1
) ۔ میں کہتا ہوں : یہ حدیث نبی کریم ﷺ کے ارشاد : ” لا تتخذوا الضیعت فترکنوا إلی الدنیا “ (تم جائیداد نہ بنائو ورنہ دنیا کی طرف جھک جائو گے) کے منافی نہیں ہے۔ اس حدیث کو ترمذی نے حضرت ابن مسعود سے روایت کیا ہے (
2
) ، اور فرمایا : یہ حدیث حسن ہے۔ یہ حدیث اس پر محمول ہے جو کثرت مال کی خاطر جائیداد بناتا ہے یا جائیداد سے لطف اندوز ہونے کے لیے جائیداد اکٹھی کرتا ہے لیکن وہ شخص جو بطور معیشت جائیداد بناتا ہے تاکہ اس کے ساتھ اپنے دین اور اپنے عیال کی حفاظت کرے تو اس نیت سے جائیداد بنانا افضل عمل ہے اور یہ افضل مال ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : ” بہتر مال نیک شخص کے لیے ہے “ (
3
) کرامات اولیاء بہت سے لوگوں نے کثرت سے ذکر کی ہیں جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے اس میں کفایت ہے۔ مسئلہ نمبر
12
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : لتخذت علیہ اجراً اس میں اجارہ کے جواز کی صحت پر دلیل ہے یہ انبیاء اور اولیاء کی سنت ہے جیسا کہ اس کا بیان سورة القصص میں انشاء اللہ آئے گا۔ جمہور علماء نے لتخذت اور ابو عمرو نے لتخذت پڑھا ہے۔ حضرت ابن مسعود، حسن اور قتادہ کی یہی قرأت ہے یہ دونوں لغتیں ہیں اور دونوں کا معنی ایک ہے۔ ایک الاخذ سے مشتق ہے جیسے تیسرا قول ہے : تبع واتبع تقی واتقی۔ بعض قراء نے ذال کو تاء میں ادغام کیا ہے اور بعض نے مدغم نہیں کیا ہے۔ حضرت ابی ابن کعب کی حدیث میں ہے : لو شئت لا وتیت اجرا (
4
) ۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ اللسلام سے عرض کی جہت سے سوال صادر ہوا تھا نہ کہ بطور اعتراض تھا۔ اس وقت حضرت خضر (علیہ السلام) نے آپ کو کہا : ھذا فراق بینی وبینک کا تکرار اور بیننا سے عدول تاکید کی خاطر ہے۔ سیبویہ نے کہا، کہا جاتا ہے : اخزی اللہ الکاذب منی ومنک یعنی منا یعنی ہم میں سے جھوٹے کو اللہ رسوا کرے، حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قول کشتی اور غلام کے بارے میں اللہ کے لیے تھا اور دیوار کے بارے میں قول اپنی ذات کے لیے دنیا کی چیز طلب کرنے کے لیے تھا، پس یہی جدائی کا سبب بنا۔ وہب بن منبہ نے کہا : وہ دیوار سو ہاتھ اونچی تھی۔
Top