Al-Qurtubi - Maryam : 34
ذٰلِكَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ١ۚ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْهِ یَمْتَرُوْنَ
ذٰلِكَ : یہ عِيْسَى : عیسیٰ ابْنُ مَرْيَمَ : ابن مریم قَوْلَ : بات الْحَقِّ : سچی الَّذِيْ فِيْهِ : وہ جس میں يَمْتَرُوْنَ : وہ شک کرتے ہیں
یہ مریم کے بیٹے عیسیٰ ٰ ہیں (اور یہ) سچ بات ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ذلک عیسیٰ ابن مریم یعنی یہ جس کا ہم نے ذکر کیا ہے وہ عیسیٰ ابن مریم ہے پس اسی طرح تم اس پر اعتقاد رکھو نہ اس طرح کہو جس طرح یہود کہتے ہیں کیونکہ وہ درست نہیں ہے وہ کہتے ہیں : یہ یوسف نجار کا بیٹا ہے اور اس طرح بھی تم نہ کہو جس طرح نصاریٰ نے کہا : وہ الٰہ ہے اور الٰہ کا بیٹا ہے۔ قول الحق کسائی نے کہا : یہ عیسیٰ کی لغت ہے یعنی ذلک عیسیٰ ابن مریم ج قول الحق حضرت عیسیٰ کا قول الحق کہا گیا جس طرح انہیں کلمۃ اللہ کہا گیا ( 1) ۔ الحق سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ابو حاتم نے کہا : اس کا معنی ہے ھو قول الحق۔ تقدیر کلام اسطرح ہے ھذا الکلام قول الحق، حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس سے مراد یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا یہ کلام قول حق ہے، باطل نہیں ہے، قول کو الحق کی طرف اس طرح مضاف کیا گیا ہے جس طرح اس آیت میں ہے : وعد الصدق الذی کانوا یوعدون۔ (الاحقاف) یعنی الوعد الصدق، اور فرمایا : ولدار الاخرۃ خیر (یوسف :109) یعنی الدار الاخرۃ، یعنی موصوف کو صفت کی طرف مضاف کیا گیا ہے۔ عاصم اور عببداللہ بن عامر نے قول الحق حال کی بنا پر منصوب پڑھا ہے، یعنی اقول قولاً حقا، ذالک میں اشارہ کا معنی اس میں عامل ہے۔ زجاج نے کہا : یہ مصدر ہے یعنی اقول قول الحق، کیونکہ اس کا ماقبل اس پر دلالت کرتا ہے۔ بعض نے فرمایا : مدح کی بنا پر منصوب ہے۔ بعض نے فرمایا : اغرا کی بنا پر منصوب ہے۔ عبداللہ نے قال الحق پڑھا ہے۔ حسن نے قول ایک معنی ہے جیسے الرھب الرھب کا معنی ایک ہے۔ الذی، عیسیٰ کی صفت ہے۔ فیہ یمترون شک کرتے ہیں یعنی عیسیٰ بن مریم جس میں یہ شک کرتے ہیں۔ سچا قول ہے۔ بعض نے فرمایا : یمترون کا معنی اختلاف کرتے ہیں۔ عبدالرزاق نے ذکر کیا ہے فرمایا : ہمیں معمر نے قتادہ سے روایت کر کے ذلک عیسیٰ ابن مریم، قول الحق الذی فیہ یمترون۔ کے متعلق بتایا کہ بنو اسرائیل جمع ہوئے اور پھر انہوں نے اپنے میں سے چار افراد نکالے ہر قوم نے اپنا عالم نکالا پس وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے اختلاف کرنے لگے جب وہ اٹھائے گئے۔ ایک نے کہا : وہ اللہ تھا وہ زمین پر ایترا، اسے زندہ کیا جسے زندہ کیا اور اسے موت دی جسے موت دی پھر وہ آسمان کی طرف چڑھ گیا۔ یہ گروہ یعقوبیہ تھا۔ دوسرے تینوں نے کہا : تم نے جھوٹ کہا ہے پھر ان میں سے دو نے تیسرے شخص سے کہا : تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے بات کر، اس نے کہا : وہ اللہ کا بیٹا ہے، یہ گروہ نسطوریہ ہے۔ پھر دوسروں نے کہا : تو نے غلط کہا ہے، پھر دو میں سے ایک نے دوسرے سے کہا : تو بات کر، اس نے کہا : تین میں سے تیسرا تھا، اللہ الٰہ ہے، عیسیٰ بھی الٰہ ہے اور اس کی والدہ بھی الٰہ ہے، یہ گروہ اسرائیلیہ ہے جو نصاریٰ کے ملوک ہیں۔ چوتھے نے کہا : تو نے غلط کہا ہے بلکہ وہ الٰہ کا بندہ اور اس کا رسول، اس کی روح، اس کا کلمہ ہے، یہ مسلمان ہیں۔ پس ان میں سے ہر ایک کے متبعین ہیں جیسا کہ انہوں نے فرمایا : وہ آپس میں لڑے تو مسلمانوں پر غلبہ دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ویقتلون الذین یامرون بالقسط من الناس (آل عمران : 21) سے یہی مراد ہے۔ قتادہ نے کہا : یہ وہ لوگ ہیں (1) جن کے بارے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فاختلف الاحزاب من بینہم انہوں نے اس میں اختلاف کیا اور وہ کئی گروہ بن گئے۔ الذی فیہ یمترون کا یہی معنی ہے۔ ابو عبدالرحمن سلمی کی قرات تمترون (تاء کے ساتھ ہے) حضرت ابن عباس نے فرمایا : حضرت مریم کے چچا کا بیٹا حضرت مریم اور ان کے بیٹے کو لیکر مصر کی طرف چلا گیا اور وہ اس میں بارہ سال رہے حتیٰ کہ وہ بادشاہ مرگیا جس سے وہ خوف کرتے تھے ؛ یہ ماوردی نے ذکر کیا ہے۔ میں کہتا ہوں : مصر کی تاریخ میں واقع ہے جو میں نے دیکھی ہے اور انجیل میں بھی آیا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولات بیت لحم میں ہوئی تھی اور اس وقت ھیرودس بادشاہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے یوسف نجار کو خواب میں وحی فرمائی اور اسے فرمایا : اٹھ اور اس بچے اور اس کی والدہ کو لیکر مصر کی طرف چلا جا اور وہاں رہے حتیٰ کہ میں تجھے کہوں کیونکہ ہیرودس نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو تلاش کرنے کا پختہ ارادہ کیا ہوا تھا تاکہ اسے ہلاک کر دے پس یوسف خواب میں بیدار ہوا اور اپنے رب کے حکم کی پیروی کی انہوں نے حضرت مسیح علیہ السللام اور مریم ان کی والدہ کو ساتھ لیا اور مصر میں آگیا مصر آتے وقت وہ بلسان کے کنویں پر اترا جو قاہرہ کی زمین میں تھا۔ حضرت مریم نے اس کنویں پر کپڑے دھوئے بلسان ایسی جگہ ہے جہاں کوئی چیز نہیں اگتی سوائے اس جگہ کے (جہاں حضرت مریم نے کپڑے دھوئے تھے) اسی جگہ سے وہ تیل نکلتا ہے جو اس زیتون سے ملایا جاتا ہے جس کا نصاریٰ قصد کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے مصریوں میں اس تیل کی ایک بوتل کی بہت بڑی قیمت ہے۔ یہ تیل نصاریٰ کے بادشاہوں ملک قسطنطنیہ، ملک صقلیہۃ، ملک حبشہ، ملک النوبہ، ملک الفرنجہ اور دوسرے بادشاہوں کو جب مصر کے بادشاہ ہدیہ بھیجتے ہیں تو ان کے ہاں اس کی بڑی قدرو منزلت ہوتی ہے۔ ہر تحفہ سے زیادہ یہ تحفہ محبوب ہوتا ہے۔ اس سفر میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اشمونین اور فسقام (جواب المحرقۃ کے نام سے معروف ہے) کے شہروں میں گئے۔ اسی وجہ سے اب بھی نصاریٰ ان شہروں کو تعظیم کرتے ہیں اور عیدالفصح میں ہر جگہ سے ان شہروں کی طرف آتے ہیں کیونکہ یہ انتہا ہے مصر کی زمین کی جہاں مسیح (علیہ السلام) پہنچے تھے اور یہاں سے شام کی طرف لوٹے تھے۔
Top