Al-Qurtubi - Al-Anbiyaa : 19
وَ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ مَنْ عِنْدَهٗ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ لَا یَسْتَحْسِرُوْنَۚ
وَ لَهٗ : اور اسی کے لیے مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین میں وَ مَنْ : اور جو عِنْدَهٗ : اس کے پاس لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ : وہ تکبر (سرکشی) نہیں کرتے عَنْ : سے عِبَادَتِهٖ : اس کی عبادت وَ : اور لَا يَسْتَحْسِرُوْنَ : نہ وہ تھکتے ہیں
اور جو لوگ آسمانوں میں اور زمین میں ہیں سب اسی کے (مملوک اور اسی کے مال) ہیں۔ اور جو (فرشتے) اس کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے نہ کتراتے ہیں اور نہ اکتاتے ہیں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ولہ من فی السموت والارض ہر چیز اس کی ملک اور تخلیق ہے پھر جو اس کا عبد اور خلق ہے اس کا خیر ہونا کیسے جائز ہے۔ ومن عندہ یعنی وہ ملائکہ جن کا تم ذکر کرتے ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ لا یستکبرون وہ سرکشی نہیں کرتے اس کی اطاعت سے۔ ولا یستحسرون۔ نہ تھکتے ہیں، یہ قتادہ کا قول ہے۔ یہ الحسیر سے ماخوذ ہے وہ اونٹ جو تھکنے کی وجہ سے جدا ہوجائے۔ کہا جاتا ہے : حسر البعیر یحسر حسوراً اونٹ تھک گیا۔ استحسر اور تحسر ہم مثل ہیں حسرتہ انہ حسراً کبھی متعدی ہوتا ہے اور کبھی متعدی نہیں ہوتا۔ أحسرتہ ایضا فھو حسیر ابن زید نے کہا : بعض نے فرمایا : وہ کمزور نہیں ہوتے، یہ ابن اعرابی نے ذکر کیا ہے۔ تمام کا مفہوم ایک ہی ہے۔ یسبحون اللیل والنھار یعنی وہ ہبیشہ نماز پڑھتے ہیں اور اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور اس کی پاکی بیان کرتے ہیں۔ لا یفترون یعنی وہ کمزور نہیں پڑتے اور اکتاتے نہیں انہیں تسبیح و تقدیس الہام کی جاتی ہے جس طرح نفس الہام کیے جاتے ہیں۔ عبدا للہ بن حرث نے کہا : میں نے کعب سے پوچھا میں نے کہا : کیا کبھی تسبیح سے نکا اعراض بھی ہوتا ہے ؟ کسی اور چیز میں بھی مشغول ہوتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا : یہ کون ہے ؟ میں نے کہا : بنی عبد المطلب سے ہوں۔ تو انہوں نے مجھے گلے لگا لیا اور کہا : اے میرے بھتیجے ! کیا سانس سے کبھی تجھے کوئی چیز غافل کرتی ہے ؟ تسبیح ان کے سانس کی طرح ہے۔ اس آیت میں ان علماء نے استدلال کیا ہے جنہوں نے کہا ہے کہ ملائیکہ، بنی آدم سے افضل ہیں۔ یہ پہلے گزر چکا ہے۔ الحمد اللہ۔
Top