Al-Qurtubi - Al-Hajj : 62
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ هُوَ الْبَاطِلُ وَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْعَلِیُّ الْكَبِیْرُ
ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّ : اس لیے کہ اللّٰهَ : اللہ هُوَ الْحَقُّ : وہی حق وَاَنَّ : اور یہ کہ مَا : جو۔ جسے يَدْعُوْنَ : وہ پکارتے ہیں مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا هُوَ : وہ الْبَاطِلُ : باطل وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ هُوَ : وہ الْعَلِيُّ : بلند مرتبہ الْكَبِيْرُ : بڑا
یہ اس لئے کہ خدا ہی برحق ہے اور جس چیز کو (کافر) خدا کے سوا پکارتے ہیں وہ باطل ہے اور اسلئے کہ خدا رفیع الشان اور بڑا ہے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ذلک بان اللہ ھو الحق یعنی وہ حق والا ہے۔ اس کا دین حق ہے اور اس کی عببادت حق ہے اور مومنین اس سے نصرت کے مستحق ہوتے ہیں اس کے حق وعدہ کے حکم سے۔ کو ان ما یدعون من دونہ ھوالباطل یعنی وہ بت جن کا عبادت میں کوئی استحقاق نہیں ہے۔ نافع، ابن کثیر، ابن عامر اور ابوبکر نے وان ماتدعون تاء کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابو حاتم نے اس کو اختیار کیا ہے اور باقی قراء نے خبر کی بناء پر یاء کے ساتھ پڑھا ہے اور سورة لقمان میں بھی یاء کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابو عبید نے اس کو اختیار کیا ہے۔ وان اللہ ھو العلی یعنی اپنی قدرت کی وجہ سے ہر چیز سے بلند ہے۔ اور اشباہ، انداد سے بلند ہے اور ظالم لوگ جو ایسی صفات بیان کرتے ہیں جو اس کے جلال کے مطابق نہیں ہیں وہ ان سے پاک ہے۔ الکبیر۔ عظمت، جلال اور بلند شان سے متصف ہے۔ بعض نے کہا : الکبیر کا مطلب ہے کبریاء والا اور الکبیر کمال ذات سے عببارت ہے یعنی اس کے لیے ہمیشہ سے وجود مطلق ہے وہ اوّل قدیم ہے آخر باقی ہے جبکہ مخلوق فنا ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الم تران اللہ انزل من السمآء مآء فتصبح الارض مخضرۃ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کمال پر دلیل ہے یعنی جو اس پر قادر ہے وہ موت کے بعد حیات کے اعادہ پر قادر ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فاذا انزللنا علیھا المآء اھتزت وربت جب ہم نے اس پر پانی اتارا تو لہلہانے لگی اور بڑی ہوئی۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ فتصبح جواب نہیں ہے تاکہ منصوب ہو ؛ یہ خلیل اور سیبویہ کے نزدیک خبر ہے۔ خلیل نے کہا : اس کا معنی ہے تو بیدار ہو، اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی نازل کیا تو ایسا ایسا ہوا جیسا کہ شاعر نے کہا : الم تسال الرببع القواء فینطق وھل تخبرنک الیوم بیداء سملق اس کا معنی ہے تو نے اس سے سوال کیا تو وہ بولا۔ بعض علماء نے کہا : استفہام تحقیق ہے یعنی قدرأیت میں پھر تو غور کر کیسے یہ ہوجاتی ہے یا عطف ہے کیونکہ اس کا معنی ہے کیا تم نے ملاحظہ نہیں کیا کہ ان کو اللہ تعالیٰ نازل کرتا ہے۔ فراء نے کہا : الم تر خبر ہے جیسے تو کلام عرب میں دیکھتا ہے جان تو کہ الللہ تعالیٰ آسمان سے پانی نازل کرتا ہے۔ فتصبح الارض مخضرۃ تو وہ زمین سر سبز ہوگئی جیسے تو کہتا ہے مبقلۃ ومسبعۃ یعنی سبزیوں والی زمین اور درندوں والی زمین۔ یہ بتانا مقصود ہے کہ پانی کے نزول کا اثر بوٹیوں پر جلدی ہوتا ہے۔ عکرمہ نے کہا : اور وہ اس طرح نہ ہوا مگر مکہ اور تہامہ میں (1) ۔ اس کا مطلب ہے اس نے فتصبح کے قول سے بارش کی رات کی صبح مراد لی ہے۔ اور ان کا خیال ہے یہ شادابی باقی شہروں میں متاخر ہوتی ہے۔ میں نے یہ بسوس الاقصیٰ میں مشاہدہ کیا کہ قحط کے بعد رات کو بارش نازل ہوئی تو وہ ریتلی زمین جس کو ہوا اڑاتی تھی صبح کے وقت باریک بوٹیوں کے ساتھ سرسبز و شاداب تھی۔ ان اللہ لطیف خبیر حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : خبیر بارش کے نہ ہونے کے وقت بندے پر جو مایوسی طاری ہوتی ہے وہ اس سے باخبر ہوتا ہے۔ لطیف اپنے بندوں کو رزق بخشنے میں بہت لطیف ہے۔ بعض علماء نے کہا : زمین سے نباتات نکالنے میں لطیف ہے اور ان کی حاجت و فاقہ سے باخبر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے لہ مافی السموت وما فی الارض تخلیق اور ملکیت کے اعتبار سے سب کچھ اسی کا ہے ہر چیز تدبیر اور پختگی میں اسی کی محتاج ہے۔ وان اللہ لھو الغنی الحمید۔ وہ کسی چیز کا محتاج نہیں وہ ہر حال میں محمود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الم تر ان اللہ سخرلکم مافی الارض ایک اور نعمت کا ذکر فرمایا بتا کہ اس نے اپنے بندوں کے لیے جانور، درخت اور نہریں جس کی انہیں ضرورت تھی اسے مسخر کردیا۔ الفلک اور کشتی کو اس کے چلنے کی حالت میں قراء نے مافی الارض پر عطف کی بنا پر منصوب پڑھا ہے۔ ویمسک السمآء ان تقع علی الارض یعنی کراھیۃ ان تقع۔ اور کو فیوں نے اس کی تفسیر میں کہا : لئلا تقع آسمان کو اس کا روکنا یہ ہے کہ اس نے اس میں ایک حال کے بعد دوسرے حال میں سکون پیدا کیا ہے۔ الا باذنہ مگر اللہ تعالیٰ کے اذن سے اس کا وقوع ہوگا۔ ان اللہ بالناس لرء وف رحیم۔ وہ اشیاء جن کو اس نے بندوں کے لیے مسخر کیا ان میں وہ بندوں پر مہربانی کرنے والا ہے۔
Top