Tafseer-e-Mazhari - Al-Hajj : 62
ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ هُوَ الْبَاطِلُ وَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْعَلِیُّ الْكَبِیْرُ
ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّ : اس لیے کہ اللّٰهَ : اللہ هُوَ الْحَقُّ : وہی حق وَاَنَّ : اور یہ کہ مَا : جو۔ جسے يَدْعُوْنَ : وہ پکارتے ہیں مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوا هُوَ : وہ الْبَاطِلُ : باطل وَاَنَّ : اور یہ کہ اللّٰهَ : اللہ هُوَ : وہ الْعَلِيُّ : بلند مرتبہ الْكَبِيْرُ : بڑا
یہ اس لئے کہ خدا ہی برحق ہے اور جس چیز کو (کافر) خدا کے سوا پکارتے ہیں وہ باطل ہے اور اس لئے خدا رفیع الشان اور بڑا ہے
ذلک بان اللہ ہو الحق وان ما یدعون من دونہ ہو الباطل وان اللہ ہو العلی الکبیر۔ یہ (نصرت) اس سبب سے (یقینی) ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہستی میں کامل ہے اور جن چیزوں کی اللہ کے سوا یہ لوگ عبادت کر رہے ہیں وہ بالکل ہی بےحقیقت ہیں اور اللہ ہی عالیشان اور (سب سے) بڑا ہے۔ اَلْحَقُّ یعنی موجود بنفسہٖ اور تنہا واجب لذاتہٖ ہے اس کے واجب الوجود اور واحد و لاشریک ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ساری کائنات کا سرچشمۂ وجود ہو ‘ ہر ایک ہی ہستی اس کی عطا کردہ ہو وہ عالم بالذات بھی ہو اور دوسری ہر چیز کا عالم ہو اور تمام صفات کمالیہ اس کی ذات میں موجود ہوں۔ کیونکہ جب تک اس کی قدرت کاملہ ‘ علم ہمہ گیری اور سماعت و بصارت محیط کل نہ ہو وہ مستحق الوہیت نہیں ہوسکتا۔ اَلْبَاطِلُ یعنی معدوم۔ ذاتی طور پر ممتنع الوجود ہے (یعنی کسی کا وجود ذاتی نہیں اور نہ وجود ذاتی ہوسکتا ہے۔ ممکن کہتے ہیں اس کو جس کی ذات کی نسبت وجود و عدم سے برابر ہو جو اپنے وجود میں واجب کا محتاج ہے) یا باطل سے مراد ہے باطل الالوہیت یعنی اللہ کے سوا ہر چیز کی الوہیت باطل اور بےحقیقت ہے۔ الْعَلِیُّوہ برتر وبالا ہے اس بات سے کہ اس کا کوئی شریک ہو۔ الْکَبِیْرُوہ عظیم الشان اور عالی مرتبہ ہے ایسا کہ اس کا کوئی مثل نہیں ہوسکتا۔
Top